چیف جسٹس نے مجھے رہا کیا‘ گرفتاری سے نہیں ڈرتا: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''چیف جسٹس نے مجھے رہا کیا‘ گرفتاری سے نہیں ڈرتا‘‘ اگرچہ چیف صاحب نے مجھے زبانی ہی معصوم قرار دیا تھا‘ فیصلہ لکھتے وقت شاید وہ یہ بات لکھنا بھول ہی گئے ؛حالانکہ ان کا حافظہ خاصا تیز ہونا چاہیے‘ کیونکہ جس کی یادداشت کا یہ عالم ہو‘ وہ کیا ترقی کر سکتا ہے؟ اور جو ترقی ہم نے کی ہے‘ وہ اپنی یادداشت ہی کے زور پر کی ہے‘ کیونکہ اتنے اکائونٹس کا حساب رکھنا‘ خصوصی یادداشت کے بغیر ممکن ہی نہیں‘ بلکہ ہمارے پاس تو بنائے گئے اثاثوں کا بھی کوئی حساب نہیں‘ جس سے ادارے مصیبت میں پڑے ہوئے ہیں اور عین ممکن ہے کہ یہ گتھی حل ہی نہ کر سکیں اور سارا کیس دھرے کا دھرا ہی رہ جائے اور ہم اپنی محنت میں سرخرو ہوجائیں‘ لیکن ایسے نہیں جیسے نواز لیگ والے سرخرو ہوتے ہیں کہ سزا ہو کر بھی کہتے ہیں؛ خدا کا شکر ہے ہم سرخرو ہوئے‘ خدا ایسی سرخروئی دشمن کو بھی نصیب نہ کرے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
احسن اقبال کو سچ بولنے کی سزا دی گئی: شہباز شریف
نواز لیگ کے صدر اور سابق خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''احسن اقبال کو سچ بولنے کی سزا دی گئی‘‘ جبکہ ہمیں جھوٹ بولنے پر سزا دی گئی تھی؛ حالانکہ وہ سارے سیاسی بیانات تھے اور یہ کیسی حکومت ہے‘ جو نہ سچ بولنے دیتی ہے ‘نہ جھوٹ اور اسی لیے میں سچ بولنے سے گریز کرتا ہوں کہ سچ بولا تو سارا کچا چٹھا باہر آ جائے گا اور ہر سچ بولنے والا ہوتا بھی نہیں۔ اب‘ آپ خود ہی بتائیں کہ جس ملک میں حکومت ایسی ہو‘ وہاں کوئی واپس کس طرح جا سکتا ہے‘ ورنہ میرا اور بھائی صاحب کا واپسی کا پختہ ارادہ تھا‘ لیکن بقول شاعر؎
ارادے باندھتا ہوں‘ سوچتا ہوں‘ توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے
اصولی طور پر تو مجھے حبیب جالبؔ کا کوئی شعر پڑھنا چاہیے تھا‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اُس نے اس موضوع پر کوئی شعر کہا ہی نہیں۔ آپ اگلے روز لندن سے اپنا بیان جاری کر رہے تھے۔
احسن اقبال کی گرفتاری سیاسی انتقام کی تازہ مثال ہے: اسفندر یار ولی
عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندر یار ولی نے کہا ہے کہ ''احسن اقبال کی گرفتاری سیاسی انتقام کی نئی اور تازہ مثال ہے‘‘ اگرچہ اس سے بھی تازہ‘ یعنی تازہ ترین مثالیں اور بھی ہو سکتی ہیں‘ مثلاً: عظمیٰ بخاری اور تارڑ کی گرفتاری ہو سکتی ہے‘ جبکہ احسن اقبال کا یہ سوال بالکل بجا ہے کہ 2.5 ارب کے منصوبے میں 6 ارب کی کرپشن کیسے ہو سکتی ہے اور اگر ایسا ہوا بھی ہے تو اس پر موصوف کو ایوارڈ ملنا چاہیے‘ جس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا اوریہ ایک ریکارڈ ہوگا‘ جس کا ورلڈ ریکارڈز کی کتاب میں اندراج ہونا چاہیے؛ اگرچہ ہم سیاستدانوں نے ایسے اور بھی کئی ریکارڈز قائم کر رکھے ہیں‘ لیکن یہاں اہلِ کمال لوگوں کی کوئی قدر ہی نہیں‘ جبھی تو یہ ملک ترقی نہیں کر رہا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
درستی
ہمارے کرم فرما نے اپنے کالم میں ایک شعر اس طرح نقل کیا ہے؎
کبھی اصول کی غیرت کبھی زیاں کا سوال
رہی ہے دماغ و دل میں مشاورت کیا کیا
اس کے دوسرے مصرعے میں کچھ الفاظ آگے پیچھے ہو گئے ہیں‘ جس سے مصرعہ بے وزن ہو گیا ہے۔اصل مصرعہ اس طرح سے ہے ع
دماغ و دل میں رہی ہے مشاورت کیا کیا
برادرِ عزیز محمد اظہار الحق نے اپنے کالم ''تلخ نوائی‘‘ میں ایک شعر اس طرح نقل کیا ہے؎
کب تلک پتھر کی دیواروں پر دستک دیجیے
تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں
اس کا پہلا مصرعہ بے وزن ہو گیا ہے‘ جو ظاہر ہے کہ ٹائپ کی غلطی ہے۔ صحیح مصرعہ اس طرح سے ہے ع
کب تلک پتھر کی دیواروں پہ دستک دیجیے
اور‘ اب آخر میں کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
ہو جہاں تک بسر گزارہ کر
دل ہے چھوٹا سا گھر‘ گزارہ کر
جو میسر ہے اس پہ راضی رہ
شکر کر‘ شکر کر‘ گزارہ کر
ایک تو ہی نہیں ہے خانہ بدوش
میں بھی ہوں دربدر‘ گزارہ کر
شر پسندوں کے ساتھ رہتے ہوئے
سیکھ لے کوئی شر‘ گزارہ کر
میرے ہمراہ چلنے والے سن
رائیگاں ہے سفر‘ گزارہ کر
یہ گزارے کا ہے مقام‘ یہاں
اور کچھ بھی نہ کر‘ گزارہ کر
حُسن فانی ہے‘ اُس کی حسرت میں
اس قدر بھی نہ مر گزارہ کر
آتے آتے ہی آئے گا قیصرؔ
شاعری کا ہُنر‘ گزارہ کر (قیصر مسعود‘ دوحہ قطر)
اُس نے اظہار کو لفظوں میں تھا ایسا باندھا
بہہ گیا ہر کوئی جذبات میں باندھا باندھا
اس نے آنکھوں سے لگائی تھی گرہ ڈھیلی سی
گویا باندھا بھی مجھے اُس نے تو آدھا باندھا
روشنی جب بھی بکھرنے لگی اس چہرے کی
میں نے اطراف میں ہاتھوں کا کنارہ باندھا(نعیم ضرار)
آج کا مقطع
اب اس کی سوچ کے ساحل پہ آ لگا ہوں ظفرؔ
کہ ایک عمر رہا ہوں بھنور کی صحبت میں