"ZIC" (space) message & send to 7575

’’مکالمہ ‘‘ اور شعر و شاعری

مکالمہ ۴۶ 
جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ یہ کتابی سلسلہ مبین مرزا کراچی سے نکالتے ہیں۔ سب سے پہلے شمیم حنفی کا مضمون بعنوان'' اکیسویں صدی: آمدِ باراں سے پہلے کچھ بوندا باندی‘‘ہے‘ پھر عبداللہ جاوید کا مضمون بعنوان ''میں اور مولوی عبدالحق‘‘ حسن منظر کا ''اوراقِ بوسیدہ‘‘ پروفیسر سحر انصاری کا '' معاشرے اور ادب کی بدلتی تقدیریں‘‘ سلمیٰ اعوان کا ''وقت کی ٹنل‘‘‘ محمد حمزہ فاروقی کا ''میرے بزرگ اور گرم و سردِ زمانہ‘‘ ڈاکٹر علی احمد فاطمی کا ''اماوس میں خواب:گہرے سماجی اور سیاسی شعور کا حامل ناول‘‘ صغیر افراہم کا ''جدید افسانے کے امتیازات‘‘ حمرا خلیق کا ''آج یہ بچہ میری طاقت ہے‘‘ فاروق خالد کا ''زندان نامہ۴‘‘ ڈاکٹر عارف محمود ہاشمی کا '' سیمیا اور عدم کا رنگِ سیاہ‘‘ ڈاکٹر امجد طفیل کا ''اینیمل فارم: ایک تاثر‘‘ رخسانہ صبا کا ''آسماں بھی ہے‘ پر ایک نظر‘‘ اور'' چشمِ حیراں: ایک تاثر‘‘ایم خالد فیاض کا ''عاصم بٹ کا ناول ؛بھید‘‘ اور آخر میں پروفیسر سحر انصاری کا خط شامل ہے۔بھرپور حصۂ نثر کے ساتھ ساتھ یہ شمارہ نظم و غزل‘ بلکہ افسانے سے بھی تہی دامن ہے۔
مکالمہ ۴۷ 
اس کے مندرجات میں حرفِ آغاز کے بعد محمد سلیم الرحمن کی نظم‘ اس کے بعد حسن منظر کا ''اوراقِ بوسیدہ ۱۲‘‘ سید مظہر جمیل کا '' حمایتؔ بھائی‘‘ مسعود اشعر کا ''انتقام ‘‘ کشور ناہید کی نظمیں اور غزلیں‘ یاسمین حمید کی نظمیں‘ مشتاق اعظمی کا نان سینس‘‘ محمد حمزہ فاروقی کا ''میرے بزرگ اور گرم و سردِ زمانہ۳‘ جمیل الرحمن اور نجیبہ عارف کی نظمیں‘ ڈاکٹر سید جعفر احمد کا ''سوختہ جاں اور شعلہ فشاں: حمایت علی شاعر‘‘ فاروق خالد کا ''زنداں نامہ۵‘ ‘عباس رضوی کا ''جنّتی‘‘ صغیر افراہیم کا '' تحریک آزادی ‘علمائے کرام اور سر سیّد کا نظریۂ مفاہمت‘‘ حمرا خلیق کا ''یتیم‘‘ ڈاکٹر امجد طفیل ''کا میو پہلا آدمی ‘‘ بصیرہ عنبرین کا ''گلی ترقی‘‘ اشتیاق احمد کا ''اچھّو‘ رجّو اور لال بتی والا پُل ‘ڈاک گاڑی ‘ ترجمہ توحید الرحمن‘‘ اشتیاق احمد کا '' سُلطانِ معظم اور بڑا سانپ‘‘ محمد جمیل اختر کا ''کنویں کے اندر کا آدمی‘ ‘سید زبیر شاہ کا '' زندہ موہن جو ڈیرو‘‘ ڈاکٹر عمران ظفر کا ''کچھ ذکر' ذکرِ فیض کا‘‘ اور اب کچھ نظمیں دیکھیے:
آخر آخر...(نجیبہ عارف)
نہیں!/ میرے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں/ ایک الجھی ہوئی ڈور ہے/ جا بجا گرہیں لگی ہیں/ جنہیں کھولنے میں خطرہ ہے/ مجھے خاموش رہنے دو/ نہیں! مجھے تم سے کوئی گلہ نہیں/ شکایت تو اپنے آپ سے ہے/ میں نے ہر بات سمجھ لینے کی خواہش ہی کیوں کی/ ایسی بے مہار خواہشوں کی قیمت چکانی پڑتی ہے/ نہیں! تم وہ نہیں تھے/ یا شاید وہی تھے‘ مگر اب نہیں ہو/ یاد کرو/ میں بھی وہ کب ہوں/ پھر سے وہ بن جانا‘ کیسے ممکن ہے/ تمہارے لیے ہی نہیں/ میرے لیے بھی! 
تُو نے تو دیر کر دی...(یاسمین حمید)
دریچے کھولنے والی/ ابھی صبح نہیں ہوئی/مگر اب رات بھی تو نہیں ہے/ ابھی ہم کسی منطقے میں بھی نہیں ہیں/ ابھی ہم گریز کی سرحد پر لڑکھڑاتے ہیں/ ابھی ہم کچھ کچھ نیند میں ہیں/ اور کبھی کبھی خواہش کرتے ہیں کہ رات/ طول پکڑ جائے/ تعبیر کی چکا چوند/ ہمیں ضرر بھی پہنچا سکتی ہے/ ہم کسی ایسی وحشت کے گڑھے میں/ بیدار ہو سکتے ہیں/ جس سے مانوس نہ ہوں/ ہم آسودگی کے مخملیں لباس میں/ پگھل کر تباہ بھی ہو سکتے ہیں/ اپنے وجود کی دو رنگی سے گھبرا کر/ عام لوگوں کے ہجوم میں گم ہو سکتے ہیں/ یا پاگل ہو کر/ اپنی گردن میں خنجر پیوست کر سکتے ہیں/ اور اپنے خون سے/ دیواروں پر ''بچائو‘ بچائو‘‘ لکھ سکتے ہیں/ مگر دریچے کھولنے والی/ تو نے یہ کیا کیا/ تو نے تو دیر کر دی/ اب ‘شام کے بعد تُو کیا کرے گی؟
میزبان۔ پہچان...(کشور ناہید)
کمرہ بند تھا/ اندر صرف ایک آئینہ تھا/ وہ صاف شفاف/ اکیلے میں کیا کر رہا تھا/ مجھے محسوس ہوا/ اُس کے اندر ایک سایہ بھی ہے/ غور کیا/ کہیں یہ میرا اپنا سایہ تو نہیں؟/ یقینا یہ کسی خاتون کا سایہ تھا/ جس کے لمبے گھنے بالوں کے سوا/ اور کچھ نظر نہیں آ رہا تھا/ میں یکا یک چونک اٹھی/ یہ سایہ اُس وقت سے/ یہاں ٹھہراہوا تو نہیں؟/ جب میرے لمبے بال/ اماں مجھے کرسی پر بٹھا کر/ دھوتی تھیں/ مگر وقت کی گرد/ اس آئینے پر نہیں ہے/ جبکہ میرے وجود پر/ مکڑیوں کے سے جالے ہیں/ جو بتاتے ہیں/ کہ عرصہ دراز سے/ کوئی میری سمت نہیں آیا ہے/ میرے وجود کا کمرہ بند ہے! ۔
اور‘ اب کچھ مزید و شاعری:
خود میں اُترے اور طغیانی سے باہر آ گئے
آ کے گہرائی میں ہم پانی سے باہر آ گئے
اس کی رونق میں بہت سنسان سے رہتے تھے ہم
شہر سے نکلے تو ویرانی سے باہر آ گئے
لفظ وہ جن کو زباں تک لانے کی ہمت نہ تھی
آخر اک دن میری پیشانی سے باہر آ گئے
دم بخود اُس حسن کو ہی دیکھتے رہتے تھے ہم
یوں بھرم ٹوٹا کہ حیرانی سے باہر آ گئے
آستیں میں پل رہے تھے اور اک دن یوں ہوا
سانپ آپس کی پریشانی سے باہر آ گئے
وہ تعلق ہم کو قیدِ خواب جیسا تھا ظہیرؔ
کھُل گئیں آنکھیں تو آسانی سے باہر آ گئے (ثناء اللہ ظہیرؔ)
یوں تو بے معنی و بے کار گنے جائیں گے
ہم فقط تیرے طرفدار گنے جائیں گے
جانے وہ کون سی ہے دُھوپ جو ملتی ہی نہیں
ہم جہاں سایۂ دیوار گنے جائیں گے
روز اک پھول بناتا ہوں لہو سے اپنے
ان میں سے ٹھیک تو دو چار گنے جائیں گے (الیاس بابر اعوان)
آج کا مقطع
وہ کہیں تخت نشیں اور بھی آگے ہے‘ ظفرؔ
آسماں تک تو مرا دستِ رسا جاتا ہے

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں