انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مریم نواز کو نواز شریف
کے پاس آنے دیا جائے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مریم کو نواز شریف کے پاس آنے دیا جائے‘‘ بلکہ غیر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھی ایسا کیا جا سکتا ہے‘ کیونکہ بھائی صاحب ماشاء اللہ جس طرح کھاتے ہیں ‘اسے مشکل سے ہی انسانی کہا جا سکتا ہے ،اس لیے اس پر حیران ہونے کی زیادہ ضرورت نہیں ہے اور اب تو مریم نواز کے بغیر انہوں نے علاج کروانے سے بھی انکار کر دیا ہے‘ جبکہ ویسے بھی وہ‘ اللہ کے فضل سے کافی صحت مند ہو چکے ہیں۔ بے شک آپ ان کے ساتھ کشتی لڑ کر دیکھ لیں ‘کیونکہ ویسے بھی ہمارا تعلق پہلوانوں کی فیملی سے ہے‘ بلکہ انہوں نے ڈاکٹر سے اجازت لے کر گھر کے قریب ہی ایک چھوٹا سا اکھاڑہ بھی بنوا رکھا ہے‘ جس میں ہر صبح دوڑ لگانے کے بعد وہ زور بھی کیا کرتے ہیں اور انہوں نے چیلنج بھی کر رکھا ہے کہ کوئی انگریز اُن کے ساتھ کشتی لڑ کر دیکھ لے‘ جبکہ ایک عدد گُرز کی بھی انہوں نے فرمائش کر رکھی ہے۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ن لیگ‘ ق لیگ پنجاب میں متبادل سیٹ اپ لا سکتی ہیں: رانا ثناء
نواز لیگ کے مرکزی رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''ن لیگ‘ ق لیگ پنجاب میں متبادل سیٹ اپ لا سکتی ہیں‘‘ جبکہ ق لیگ ہزار کوشش کے باوجود ہم پر اعتماد ہی نہیں کر رہی ؛حالانکہ ہماری طرف سے اسے مطمئن رہنا چاہیے‘ کیونکہ ہم تو ایک ایک کر کے آخر کار اندر ہی ہونے والے ہیں ‘جبکہ ہماری قیادت پہلے ہی لندن کی ہو کر رہ گئی ہے۔ اس لیے ق لیگ کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور ہماری پیشکش قبول کر لینی چاہیے اور جہاں تک مریم بی بی کا سوال ہے تو انہیں بھی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر باہر بھیج دیا جائے گا‘ کیونکہ حکومت کو کچھ عرصے سے انسانی ہمدردی کا بخار چڑھا ہوا ہے‘ جس کی بنا پر وہ شریف برادران سے پہلے ہی ہاتھ دھو چکی ہے‘ یعنی درجہ بدرجہ خیریت ہے اور ق لیگ کو اس سنہری موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ پیشتر اس کے کہ یہ سنہری رنگ کہیں غائب غُلّہ ہو کر رہ جائے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دے رہے تھے۔
اعدلوا
یہ ڈاکٹر اے آر خالد کی تازہ تصنیف ہے ‘جسے قلم فائونڈیشن انٹر نیشنل نے اپنے روایتی اعلیٰ گیٹ اپ میں چھاپا ہے۔ پس سرورق علامہ عبدالستار عاصم کی تعارفی تحریر ہے اور مصنف کی تازہ تصویر۔ اندرون سرورق متعدد روزناموں میں شائع ہونے والی آراء درج کی گئی ہیں۔ انتساب امام غزالی ؒ کے نام ہے‘ جنہوں نے ''اعدلوا‘‘ کی وسعتوں‘ گہرائیوں اور پنہاں موتیوں کا ایسا ابلاغ کر دیا کہ مجھے اپنی کتاب کا نام ''اعدلوا‘‘ رکھنا پڑا کہ گویا حکمت و دانائی کے موتی چُننے والوں کو یکسوئی میسر آ گئی۔
ڈاکٹر صاحب کی ذاتِ با برکات کسی تعارف کی محتاج ہرگز نہیں ہے‘ جو ایک مستند تجزیہ کار اور صاحب ِ طرز کالم نگار ہونے کے علاوہ پروفیسر آف انسٹی ٹیوٹ آف کمیونی کیشن سٹڈیزپنجاب یونیورسٹی کے طور پر بھی اپنی خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ صاحب ِ موصوف نے اپنی تصنیف ِلطیف میں پاکستان کی سیاسی تاریخ سے بحث کی ہے‘ جس میں جمہوری اور آمرانہ ادوار کا تجزیہ پیش کیا گیاہے اور جس میں انہوں نے جنرل ایوب خان کے دور کو زبردست خوشحالی کا دور قرار دیا ہے اور جس میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے اور اس سیاسی تاریخ نویسی میں انہوں نے جملہ ملکی اداروں کا بھی کھل کر جائزہ لیا ہے۔ اندازِ تحریر عالمانہ اور دلکش ہے۔ ملکِ عزیز کی سیاسی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب کسی تحفے سے کم نہیں۔
اور‘ اب آخر میں ممتاز پنجابی شاعرہ محترمہ انجم قریشی کے شعری مجموعے ''میں لبھن چلی‘‘ میں سے ایک نظم:
حالیں رات لنگھانی ہووے گی
حالیں رات لنگھانی ہووے گی
کوئی گل سُنانی ہووے گی
اک جپھی پانی ہووے گی
اوہ تانگھ پرانی ہووے گی
پر ماہی میں نہیں ہوواں گی
مینوں کول بٹھا کے تکن دی
تک تک کے مینوں رجن دی
نال میرے بجھ گھتن دی
اُڈیک نمانی ہووے گی
پر ماہی میں نہیں ہوواں گی
ہر دُکھ وی مگروں لہہ جائے گا
ہاسہ ہنجواں نال کھیہہ جائے گا
ہر پُٹھا سِدھا پَے جائے گا
ہر سوچ سیانی ہووے گی
پر ماہی میں نہیں ہوواں گی
جھُولے پِپلاں تے ڈولن گے
پنچھی باغاں وِچ بولن گے
سُکھاں نوں جانی پھولن گے
تقدیر منانی ہووے گی
پر ماہی میں نہیں ہوواں گی
توں اپڑن والا ہوویں گا
پُہنچ کے تُوں وی روویں گا
میرے وی ہجر نوں ڈھوویں گا
میری قدر پچھانی ہووے گی
پر ماہی میں نہیں ہوواں گی
آج کا مقطع
دل میں ہمت ہو تو گرداب ِمحبت سے‘ ظفرؔ
خود نکلنا چاہیے اور خود ہی پھنسنا چاہیے