"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘متن‘ درستی اور شعر و شاعری

شکست کو تسلیم کرنے والا کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''شکست کو تسلیم کرنے والا کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا‘‘ اس لیے آپ اپنے حریف کے ساتھ مقابلے میں ہار بھی جائیں تو کبھی ہار تسلیم نہ کریں‘ مثلاً باکسنگ کے مقابلے میں اگر مخالف آپ کو ناک آئوٹ بھی کر دے اور نیچے بھی گرا دے اور ریفری اس کا ہاتھ بلند کر کے اس کی جیت کا اعلان بھی کر رہا ہو تو اٹھ کر پھر اس کی طرف بڑھیں‘ بیشک وہ مار مار کر آپ کے چودہ طبق روشن کر دے‘ کیونکہ لوڈشیڈنگ کے اس زمانے میں اگر کسی کے چودہ طبق مفت میں روشن ہو جائیں تو اسے اور کیا چاہیے اور میں اسی لیے کہا کرتا ہوں کہ بُرے وقت کے بعد ہمیشہ اچھا وقت بھی آتا ہے‘ چاہے اس کے آنے میں جتنے بھی سال لگ جائیں؛چنانچہ اس وقت تک آدمی کو گھبرانا نہیں چاہیے‘ بلکہ صبر سے کام لینا چاہیے اور اگر آپ نے صبر کرنا سیکھ لیا تو یوں سمجھیے کہ بیڑہ پار ہے؛ بشرطیکہ وہ ان کشتیوں میں شامل نہ ہو جو آپ نے کام کرنے سے پہلے جلا ڈالی ہوں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ملک میں ہر چیز درست نہیں‘ مگر کوشش کر رہے: فروغ نسیم
وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا ہے کہ ''ملک میں ہر چیز درست نہیں‘ مگر کوشش کر رہے‘‘ کیونکہ ہم کوشش ہی کر سکتے ہیں اور ہماری کوششوں ہی سے نوبت یہاں تک پہنچی ہے؛ چنانچہ اسی طرح ہم آٹا اور چینی مافیا کو بھی تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جو حضرات ‘وزیراعظم کے دائیں بائیں بیٹھے ہیں‘ وزیراعظم نے ان کی طرف بہت غور سے بھی دیکھا ہے اور وہ مافیا ہرگز نہیں لگتے؛ چنانچہ انہیں کہہ دیا گیا ہے کہ اگر آپ مافیا نہیں‘ تو اسے تلاش کر کے دیں‘ بصورتِ دیگر وزیراعظم آپ کی طرف دوبارہ غور سے دیکھیں گے‘ جبکہ وزیراعظم کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مافیاز شکل دیکھنے سے نہیں پہچانے جا سکتے‘ بلکہ ان کے کام پر نظر ڈالنی چاہیے؛ چنانچہ اب ان کے کاموں کو بنظرِ غائر دیکھا جا رہا ہے؛ حالانکہ وہ یہ کام کہیں اور جا کر کرتے ہیں‘ تاہم امید ہے کہ کچھ لوگ جلدی ہی پہچان لیے جائیں گے۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت نے سیاسی تلخی کو گالم گلوچ تک پہنچا دیا: قمر زمان کائرہ
پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''حکومت نے سیاست میں موجود تلخی کو گالم گلوچ تک پہنچا دیا‘‘ اور گزشتہ روز قومی اسمبلی میں ہمارے قائد کو مسٹر ٹین پرسنٹ کہہ کر ان کے وقار کو گھٹانے کی مذموم کوشش کی ہے ‘کیونکہ وہ بہت جلد مسٹر سینٹ پرسنٹ ہو گئے تھے‘ اور اس طرح ان کا نوے پرسنٹ کم کر کے ہماری سخت حق تلفی کی ہے‘ کیونکہ اتنی محنت سے کمائی گئی عزت کو اس طرح کم کرنے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے‘ بلکہ بعد میں تو وہ ترقی کرتے کرتے سینٹ پرسنٹ سے بھی زیادہ ہو گئے تھے‘ جو اندھوں کو بھی نظر آ رہا تھا‘ لیکن ان عقل کے اندھوں کو نظر نہیں آتا اور خدشہ ہے کہ ہمارے چیئر مین جس درجے کے مستحق ہیں‘ انہیں بھی اس سے کم کر کے دکھایا جائے گا‘ کیونکہ بچپن ہی میں ارب پتی ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں اور اگر اثاثوں کا حساب لگایا جائے تو فریال تالپور بھی کسی سے کم نہیں نکلیں گی‘ جلنے والوں کا منہ کالا۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
درستی
بھائی صاحب نے اپنے کالم میں ایک شعر اس طرح درج کیا ہے؎
میں ہوں وحشت میں گم‘ تیری دنیا میں نہیں رہتا
بگولہ رقص میں رہتا ہے صحرا میں نہیں رہتا
اس کا پہلا مصرعہ بے وزن ہو گیا ہے‘ جو اس طرح سے ہے ع
میں ہوں وحشت میں گُم اور تیری دنیا میں نہیں رہتا
جناب اسرار ایوب نے اپنے ایک کالم میں اپنے جو اشعار درج کیے ہیں ‘ان میں اسے ایک یہ بھی ہے ؎
ہمیں چمکنا ہے اب اس کے چاند ستارے میں
سو اپنے خون میں پرچم یہ رنگ ڈالا ہے
اس کا پہلا مصرعہ بے وزن ہو گیا ہے جو اس طرح ہونا چاہیے ع
ہمیں چمکنا ہے اب اس کے چاند تارے میں
اور‘ اب آخر میں کچھ شعر و شاعری:
مجھ سے اب بیزار مری بیزاری ہو رہی ہے
کیا مجھ میں کچھ ہونے کی تیاری ہو رہی ہے
کیسے بچائوں گا میں تجھ کو خانہ جنگی سے
میرے اپنے اندر مارا ماری ہو رہی ہے
بننے لگی ہیں لہریں سی اب میری ریت پہ بھی
صحرا کو بھی دریا کی بیماری ہو رہی ہے
اس دنیا کا سب سے قدیم عزاخانہ ہوں میں
روزِ ازل سے مجھ میں گریہ و زاری ہو رہی ہے (علی ارمانؔ)
...............
آنکھ کے آنکھ سے ملانے کا نظارہ دیکھو
جیسے تلوار سے تلوار گلے مل رہی ہے
اس لیے چھوڑ دیا بھیس بدلنا میں نے
مجھ کو ہر روپ میں پہچان لیا جاتا ہے
اس قدر خوف رگ و پے میں سرایت ہے کہ میں
دل ذرا کھل کے دھڑکتا ہے تو ڈر جاتا ہوں
تیرا وجود مجھ میں سما تو نہیں گیا
اے شخص تو کہاں ہے‘ چلا تو نہیں گیا
ہجر کا ایک تو احساس نہیں ہے مجھ میں
دل ہو خالی تو مری آنکھ بھری ہوتی ہے
جسے فضول سمجھ کر دیا مجھے تم نے
وہ زخم میں نے بڑے کام کا بنا لیا ہے (فقیہہ حیدر)
آج کا مقطع
آنکھوں سے آتے جاتے الجھتا ہے ‘اے ظفرؔ
دیوار پر لکھا ہوا کچھ اُس کے ہاتھ کا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں