"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن‘ محمود الحسن کا شرفِ ہمکلامی اور شاعری

32سوالوں کا جواب مانگ لیا‘ سیاسی انتقام ہے: بلاول بھٹو 
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''احتساب ادارے نے 32سوالوں کا جواب مانگ لیا‘ سیاسی انتقام ہے‘‘ کیونکہ پانچ سات سوالوں میں بھی گزارہ ہو سکتا ہے‘ اگرچہ مجھے پانچ سات سوالوں کا جواب بھی نہیں آتا تھا کیونکہ جس وقت کے سوالات ہیں‘ میں اس وقت بچہ تھا اور صرف دستخط کر سکتا تھا جو مجھے خاص طور پر سکھائے گئے تھے‘ جبکہ اس کے بعد میں اے بی سی بھی سیکھ رہا تھا اور باقی چیزیں بھی میں نے بچپن ہی سے سیکھنا شروع کر دی تھیں جو صرف والد صاحب نے سکھائی تھیں کیونکہ ان سب کی مہارت صرف اُنہیں حاصل تھی بلکہ اب تو یہ ہُنر میں دوسروں کو بھی سکھا سکتا ہوں ۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں پیشی کے بعد میڈیا سے خطاب کر رہے تھے۔
غداری کا الزام لگتا ہے تو میرے لیے فخر کی بات ہے: خواجہ آصف
نواز لیگ کے رہنما خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ''غداری کا الزام لگتا ہے تو میرے لیے یہ فخر کی بات ہے‘‘ کیونکہ ہمارے قائدین سمیت ہم نے جو اتنے بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیئے ہیں وہ بجائے خود غداری کی ذیل میں آتے ہیں کیونکہ ملک کو مالیاتی آلائشوں سے پاک کر دینا ایک اعلیٰ قسم کی خدمت ہے جسے سہولت کی خاطر غداری بھی کہا جا سکتا ہے جبکہ ہم نے غداری کے معنی ہی تبدیل کر دیئے تھے اور اس کا نام خدمت رکھ لیا تھا‘ اس لیے میرے خلاف انکوائری کی ضرورت ہی نہیں ہے بلکہ کیس شروع کر دینا چاہیے کہ نیک کام میں دیر کرنے کا حکم نہیں ہے جبکہ ہم نے مذکورہ بالا نیک کام میں کبھی سستی کا مظاہرہ نہیں کیااور اس سے پیپلز پارٹی کی خدمات کا مقابلہ بھی کر رہے ہیں لیکن کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک ٹی وی پروگرام میں شریک تھے۔
تبدیلی کا نعرہ قبر کے سکون میں دفن ہو گیا ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''تبدیلی کا نعرہ قبر کے سکون میں دفن ہو گیا‘‘ لیکن اس کا جنازہ ابھی تک نہیں پڑھایا گیا جس کے لیے خاکسار حاضر ہے بلکہ میں یہ جنازہ پڑھا بھی چکا ہوں اور میرے بارے میں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ میرے جیسا جنازہ اور کوئی نہیں پڑھا سکتا اور اگر میری تقریریں اسی طرح رائیگاں جاتی رہیں تو میں یہ کام پیشے کے طور پر بھی اپنانے کا ارادہ کر لوں گا جبکہ بعض شرپسندوں کا خیال ہے کہ میں خدانخواستہ سیاسی جماعت کا جنازہ بھی پڑھا چکا ہوں ۔ آپ اگلے روز لاہور میں پریس کلب کے سامنے مہنگائی کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں سے خطاب کر رہے تھے۔
شرفِ ہمکلامی
یہ صحافی اور ادیب محمود الحسن کی تصنیف ہے جو ہمارے لیجنڈ فکشن رائٹر اور صاحبِ طرز نثر نگار انتظار حسین کی ملاقاتوں اور باتوں پر مشتمل ہے‘ جسے سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور نے چھاپا ہے۔ انتساب بے حد عمدہ شاعر احمد مشتاق کے نام ہے۔ دیباچہ شمیم حنفی کے قلم سے ہے۔ ابتدا میں آصف فرخی کی کتاب ''چراغِ شبِ افسانہ‘‘ انتظار حسین کا جہانِ فن سے اقتباس درج ہے اور ''انتظار حسین کے لیے‘‘ کے عنوان سے احمد مشتاق کی نظم کے اشعار ہیں‘ جبکہ پسِ سرورق مصنف کی تصویر اور مختصر تعارف درج کیا گیا ہے۔ سرورق راحت ڈار نے بنایا ہے۔ پیش لفظ مصنف کا بقلم خود ہے۔ یہ کتاب ایک بیانیے کی شکل میں ہے جو انتظار حسین کی نثر کی طرح دلچسپ بھی ہے اور معلومات افزا بھی‘ جیسے انتظار حسین سامنے بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ ایک بڑا کام تھا جو نوجوان محمود الحسن نے کر دکھایا ہے۔ کتاب کے آخر میں شمس الرحمن فاروقی‘ شمیم حنفی اور ناصر عباس نیئر جیسے بڑے نقادوں کی انتظار صاحب کے با رے میں رائے درج ہے‘ جس نے اس ہلکی پھلکی کتاب کو مزید وقیع بنا دیا ہے۔ سنگ میل پبلشرز والے افضال احمد اس کتاب کی اشاعت پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
اور‘ اب آخر میں کچھ شعر و شاعری:
آؤ دیکھا نہ تاؤ، کود پڑے
جل رہا تھا الاؤ،کود پڑے
جس جگہ بھی لگا کہ خطرہ ہے
دے کے مونچھوں کو تاؤ ،کود پڑے
گھوم لو میرے ساتھ دریا میں
کہہ رہا تھا گھماؤ، کود پڑے
جس طرف تھا سکون دیکھا نہیں
جس طرف تھا بہاؤ ،کود پڑے
جب نئے عشق نے کہا کودو
بھول کر پچھلے گھاؤ، کود پڑے
یہ نہ دیکھا کہ کون ہے جازل
جو بھی چیخا بچاؤ ،کود پڑے (جیم جازل)
اس سرائے سے نکل جانے کے رستے کم ہیں
دل میں ٹھہرا ہوا مہمان کہاں جا تا ہے
منکشف کور نگاہی سے ہوا ہے مجھ پر
لوگ کشکول میں رکھا بھی اُٹھا لیتے ہیں
تمہارے حسنِ جہاں سوز کی تباہی سے
جو بچ گئے تھے وہ حیرت سے مرنے والے ہیں
کوئی خوش رنگ دلاسا ہے تو لکھتے جاؤ
میری دیوار پہ نعرے کی جگہ خالی ہے
زادِ رہ ہم نے یہی سوچ کے کم رکھا ہے
تم پکارو تو پلٹ آنے میں آسانی ہو (آزاد حسین آزادؔ)
آج کامطلع:
میں سانس لے نہیں سکتا ہوا رکاوٹ ہے
رکا ہوا ہوں کہ خود راستا رکاوٹ ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں