مجھے ہارٹ اٹیک ہوا تو بیمار پرسی کے لیے جو لوگ اوکاڑہ آئے‘ ان میں محمد سلیم الرحمن کے علاوہ کشور ناہید‘ یوسف کامران‘ صلاح الدین محمود‘ منو بھائی اور ریاض احمد چودھری شامل تھے۔ منو بھائی نے اپنے کالم میں لکھا کہ ظفرؔ اقبال کو پہلا ہارٹ اٹیک اس وقت ہوا تھا‘ جب اس نے پہلا شعر کہا تھا۔ ریاض کو جو چیز اچھی لگتی‘ اس پر مزیدار کا لیبل ضرور لگاتے۔ ایک بار ان کیلئے جوتا خریدنے کیلئے گئے اور ایک جوتا پسند آیا تو بولے‘ مزیدار ہے۔ ''سویرا‘‘ کا ٹائٹل حنیف رامے بنایا کرتے تھے؛ حتیٰ کہ جب وہ وزیراعلیٰ اور سپیکر اسمبلی تھے‘ تب بھی۔ اس دوران ریاض نے اتنی مشق حاصل کر لی تھی کہ رامے صاحب کے انتقال کے بعد ٹائٹل وہی بنایا کرتے اور یہی لگتا تھا کہ حنیف رامے ہی کا بنایا ہوا ہے!سلیم الرحمن کی ایک خوبصورت نظم دیکھیے:۔
خزانوں کو تم ڈھونڈنے پر مصر ہو!
لپکتا ہے خوں ناخنوں سے اور آنکھوں سے
کھوئی ہوئی نیند کی تلخ سرخی
یہ کھیتوں کی جیتی جڑیں کاٹتے پھاوڑے اور کدالیں
ہیں خود موت کے ہاتھ جس کے تمسخر
سے تم بے خبر ہو!
ہتھیلی پہ عمر اور دل کی لکیروں میں اٹکے
یہ مدھم سے ذرّے کہ جن میں ابھی تک تمہارے
اب وجد کی مٹّی
کی ایک جھلملاتی کرن‘ کتنے زرخیز وعدوں کے دن رات تجتی ہوئی‘ اس گھڑی
قید میں ہے!
تمہاری طرف وہ خزانوں پہ بیٹھے ہوئے سانپ
تازہ لہو پی کے پھر سے کسی کھوئے نشے
کی جنت میں گھلنے
خیالی عذابوں میں جلنے کی حیرت سے گویا
سراپا زر و سیم کی یخ سلاخیں‘ اور آنکھیں
بلور اور ہیرے
خزانے تو سب خاک میں مل چکے ہیں!
ہوا و ہوس کے پرانے ٹھکانوں پہ اب نَو بہ نَو
پھول حسرت کے دیکھو
یہ مٹی کہ چپ ہے‘ بس اس کا دفینہ
برس کے برس اَن گنت پھول پتوں کی لیلا
یہ مٹی تمہیں ڈھونڈتی ہے!
سلیم الرحمن کے بارے تین خاص باتیں۔ ایک تو یہ کہ اس نے شادی نہیں کی۔ کم از کم اس وقت تک نہیں کی تھی ‘جب ہم ان سے ملنے ان کے گھر داروغہ والا جایا کرتے تھے‘ جو شخص نظموں میں اس قدر مبتلا ہو ‘اسے شادی وغیرہ کی شاید ضرورت بھی نہیں رہتی۔ دوسری یہ کہ چند برس پہلے اکادمی کی طرف سے ان کیلئے ایوارڈ کا اتنی تاخیر سے اعلان کیا گیا کہ موصوف نے قبول کرنے سے انکار کر دیا اورتیسری حیرت انگیز بات یہ کہ کٹّڑ اہلِ زبان ہوتے ہوئے اس نے پنجابی زبان میں بھی نظمیں لکھی ہیں‘اسی کتاب میں سے ایک پنجابی نظم دیکھیے:
کلّم کلّی رات پرائی
دل دی اک نُکرّ وچ فیروی
مدھم جیہا چانن کیویں؟
ایہہ گل کدی دی سمجھ نہ آئی
پُٹھے سدھّے اُچّے نیویں
کمّاں وچ اساں عُمر گوائی
ایہہ نہ ویکھیا رات ہنیری وچ کیہ رمزاں
کیہ وکھاون لئی دل دی
نکُرّ وچ لپ بھر رشنائی
اور اب آخر میں ابرار ؔاحمد کے مجموعے '' ماہوم کی مہک‘‘ سے نظم
ذہن سے محو ہوئے جاتے ہیں
مائلِ عرضِ تمنا ہیں
نہ ہیں وقفِ ملال
کہیں ٹھہرے بھی نہیں ہیں
کہیں پہنچے بھی ہیں
ٹھیک چلتے بھی نہیں
راہ میں بیٹھے بھی نہیں
اک تھکن ہے کہیں
لپٹی ہوئی ہر پہلو سے
دل میں ٹھہرا ہے وہ سناٹا
کہ جس میں کوئی مہکار نہیں
کسی آواز کا پر تو بھی نہیں
چپ بھی نہیں
کتنی دنیائیں تھیں‘ جن میں
کبھی بستے رہے ہم
کتنی آنکھیں تھیں
کہ جن میں کبھی
ہنستے رہے تم
ذہن سے محو ہوئے جاتے ہیں
آہستہ خرام
خوابِ خوش پوش تمام
جن سے راتوں میں چمک
دل میں اجالا تھا‘ ابھی
وہ دمکتے ہوے نام----!
آج کا مقطع
سارے اہلِ زباں میں گھرا ہوا ہے ظفرؔ
اور ان کے بیچ میں یہ بے زبان آخری ہے