اگلے روز میں نے سبط علی صبا ؔکا صحن میں رستے بنانے والا شعر آنس معینؔ سے منسوب کر دیا تھا ‘جس کے لیے معذرت خواہ ہوں‘ تاہم میں اس بات پر قائم ہوں کہ شعر غیر واقعی اور غلط ہے۔ میں اپنے گھر کی دیوار گراتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ اس کے صحن میں رستے کون بناتا ہے کہ گری ہوئی دیوار کے ملبے پر سے گزرنے کی کوشش کوئی احمق ہی کرے گا‘ جب سامنے کمرے ہوں یا دیوار ۔ لوگ بس صحن میں رستے بنانے پر ہی واہ واہ کرتے رہے اور یہ نہ دیکھا کہ شعر کی کوئی تک بھی بنتی ہے یا نہیں؟ تاہم یہ بھی کھل گیا کہ سبط علی صباؔ بھی ایک ہی شعر کے شاعر تھے‘ جو بجائے خود غلط بھی ہے۔جناب ڈاکٹر ریاض مجید نے مجھے بن مانگے مشورے نہ دینے کا بن مانگا مشورہ دیا تھا‘ جبکہ میرے مشورے اتنے فالتو نہیں ہوتے کہ میں بن مانگے دیتا پھروں۔ لوگ اپنی کتاب رائے لینے کے لیے بھیجتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں صرف میرٹ پر بات کرتا ہوں اور اس طرح وہ مجھ سے مشورہ ہی طلب کر رہے ہوتے ہیں۔ صاحب موصوف کے ذہن میں یہ الجھن شا ید اس لیے پیدا ہوئی کہ شعر و ادب کے حوالے سے ہم تحسین ِ باہمی کے کلچر میں رہ ہے ہیں‘ یعنی ع
من ترا حاجی بگویم تو مرا مُلا بگو
بلکہ انگریزی محاورے کے مطابق ''‘ میں تمہاری پیٹھ کھجاتا ہوں‘ تم میری پیٹھ کھجائو‘‘ اور ادب کے زوال پذیر ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ میں نے چند ماہ پہلے فیض احمد فیض ؔکی شاعری پر ایک کالم لکھا تھا‘ جس کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اس پر رد عمل بہت سخت آئے گا۔ میں نے کہا: کوئی بات نہیں۔ سو‘ وہ کالم چھپا اور رد عمل تو کیا آنا تھا‘ ایک چڑیا تک نہیں پھڑکی ‘کیونکہ میں دلیل کے ساتھ بات کرتا ہوں‘ ہوا میں تیر نہیں چلاتا۔ میں نے اس کالم میں دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی لکھا کہ فیض ؔنے جس طبقے کے لیے انقلابی شاعری تخلیق کی تھی ‘وہ اس طبقے تک پہنچی ہی نہیں اور اب نظرثانی کے بعد میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ فیضؔ نے اسی ایلیٹ طبقے کے لیے شاعری کی تھی‘ جو اب اسے سر پر اٹھائے پھرتا ہے‘ جبکہ فیضؔ کا اپنا تعلق بھی اسی طبقے سے تھا۔ غریب کے حق میں اٹھنے والی بات حبیب جالبؔ کے منہ سے تو اچھی لگتی ہے کہ وہ خود غریب تھا اور جانتا تھا کہ غربت کیا ہوتی ہے‘ جبکہ محض فیشن کے طور پر یا مقبولیت حاصل کرنے کیلئے غریب نواز ہونا ایک بالکل مختلف بات ہے۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ میں فیض ؔکے ماننے والوں میں سے ہوں ‘لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ فیض ؔبات یا اس سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا ہے۔
ریاض مجید صاحب نے میری شاعری کو تنازعات میں گھری ہوئی قرار دے کر رد کیا تھا‘ جس کے بارے میں صرف اتنا عرض ہے کہ جس شاعری نے جدید اردو غزل کے منظر نامے ہی کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہو‘ اس نے متنازع تو ہونا ہی تھا۔ ایک سپاٹ اور بے جان شاعر ی کس طرح متنازع کہلا سکتی ہے؟ مجھے ایک دنیا جانتی اور مانتی ہے۔ یہ بات میں نہیں‘ بلکہ لوگ کہتے ہیں۔ہو سکتا ہے‘ وہ غلط ہی کہتے ہوں۔ ریاض مجید خود ہی بتا سکتے ہیں کہ فیصل آباد سے باہر‘ ان کے شاگردانِ رشید کے علاوہ‘ انہیں کتنے لوگ جانتے ہیں‘ماننا تو بعد کی بات ہے‘ اگر وہ کبھی فیصل آباد کے کنوئیں سے نکلیں تو انہیں معلوم ہو کہ اس کنوئیں سے باہر کتنے دریا اور سمندر ٹھاٹھیں مار رہے ہیں؎
کانوں سے انگلیاں نہ نکالو تو کچھ نہیں
سنتے رہو تو روز نئی داستان ہے
حق تو یہ ہے کہ جو اچھا شعر کہتا ہے‘ وہ میرا محسن ہے۔ فیصل آباد ہی کے میرے محسنین میں سے چند یہ بھی ہیں:
وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے
رو پڑا وہ آپ مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے (ریاض مجید)
بے جان پڑا دیکھتا رہتا تھا میں اس کو
اک روز مجھے اس نے اشارے سے اٹھایا (انجم سلیمی)
ہم شاعر ہوتے ہیں! (نظم‘ وحید احمد)
یہ شہر چھوڑنا بھی ہے اور اس سے پیشتر
اس بے وفا کو ایک نظر دیکھنا بھی ہے (اشرف یوسفی)
مجھے تخریب بھی نہیں آئی
توڑتا کچھ ہوں‘ ٹوٹتا کچھ ہے (مقصود وفا)
تمہارے سامنے سچ بولنے سے رک گئے ہیں
ہمیں بتائو تمہیں اور کیا پسند نہیں (ثناء اللہ ظہیر)
زمین ٹھیک ہے اور آسماں مناسب ہے
جو تو یہاں ہے تو پھر یہ جہاں مناسب ہے (حماد اظہر)
اور اب آخر میں اسحاق وردگ کی شاعری:
بازار ہیں خاموش تو گلیوں میں ہے سکتہ
اب شہر میں تنہائی کا ڈر بول رہا ہے
ہم خاک بسر گردِ سفر ڈھونڈ رہے ہیں
اور لوگ سمجھتے ہیں کہ گھر ڈھونڈ رہے ہیں
دیوانوں کے مانند مرے شہر کے سب لوگ
دستار کے قابل کوئی سر ڈھونڈ رہے ہیں
اب شام ہے تو شہر میں گائوں کے پرندے
رہنے کے لیے کوئی شجر ڈھونڈ رہے ہیں
جو ذات کی گلیوں میں ہمیشہ سے ہے موجود
یہ لوگ اسے آج کدھر ڈھونڈ رہے ہیں
گلیوں میں بھٹکتے ہوئے مانوس سے چہرے
ڈھلتی ہوئی تہذیب کے گھر ڈھونڈ رہے ہیں
افسردہ سے چہروں پہ بڑی دیر سے ہم لوگ
اک کھویا ہوا دستِ ہنر ڈھونڈ رہے ہیں
وہ لوگ جو سورج کو بچانے نہیں نکلے
اب راکھ کی بستی میں شرر ڈھونڈ رہے ہیں
آج کا مقطع
محبت سر بسر نقصان تھا میرا‘ ظفرؔ اب کے
میں اس سے بچ بھی سکتا تھا‘ مگر ہونے دیا میں نے