جیلوں میں ظلم برداشت نہیں کریں گے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''جیلوں میں ظلم برداشت نہیں کریں گے‘‘ کیونکہ اگر جیلوں سے باہر ظلم کو پوری پوری گنجائش موجود ہے تو جیلوں میں ظلم کو کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے‘ جبکہ جیلوں میں توپہلے ہی مظلوم لوگ بھرے پڑے ہیں‘ جن میں معصوم سیاستدان خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ‘جبکہ کچھ ہمارے بھی بے گناہوں کو جیل بھیجنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں؛ بشرطیکہ ان کا جرم ثابت ہو گیا ‘کیونکہ ملک ِعزیز میں جرائم کا ثابت ہونا بہت بڑا مسئلہ بن چکا‘ جس میں پراسیکیوشن کی کمزوریاں سرفہرست ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ارکان اسمبلی سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔
حکومت نے ملک کو دنیا میں بھکاری بنا دیا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت نے ملک کو دنیا میں بھکاری بنا دیا‘‘ حالانکہ صورتِ حال اس حکومت کے برسر اقتدار آنے سے پہلے بھی مختلف نہ تھی‘ لوگ بیروزگار ہیں اور ہمارے حالات بھی اچھے نہیں؛ حالانکہ مارچوں اور دھرنوں کا واحد مقصد حکومت کے سامنے دست ِسوال دراز کرنا تھا‘ لیکن حکومت اشاروں کو سمجھتی ہی نہیں؛ اگرچہ اشارے کرنا ویسے معیوب بات ہے ‘ بلکہ اب تو ایسا لگتا ہے کہ ساری اپوزیشن ہی بیروزگار ہو گئی ہے کہ ہر کوئی زبانی کلامی ہی شور و غوغا مچا رہا ہے‘ عملی طور پر کچھ کرنے کے لیے تیار ہی نہیں‘نیز اب تو یہ بیانات بھی آنا شروع ہو گئے ہیں کہ ہم حکومت گرانا نہیں چاہتے۔ آپ اگلے روزمیڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
زیرِ آسماں
یہ پروفیسر شاہد صدیقی کے کالموں کا مجموعہ ہے‘ جسے سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور نے چھاپا ہے۔ پس سرورق افتخار عارف‘ محمد اظہار الحق‘ شکیل عادل زادہ اور رئوف کلاسرا کی تحسینی آرا درج ہیں۔ افتخار عارف کے مطابق ''زیرِ آسماں‘‘ میں ایک نگار خانۂ رقصاں کا اہتمام کیا گیا ہے‘ جس میں ہر تصویر ہزار شیوہ و صد ہزار معافی کے ساتھ‘ بیانیہ دلکش و دل آویز‘ زبان رواں اور اسلوب دل میں گھر کر جانے والا۔ مختلف زبانوں میں لکھی جانے والی تحریریں کتاب کی وحدت میں اپنی آب و تاب برقرار رکھتی ہیں تو یہ بات قابلِ رشک بھی ہے اور لائقِ تحسین بھی! جہانِ دانش یقینا ''زیرِ آسماں‘‘ کی رنگا رنگی کے اس بیانیے کا خیر مقدم کرے گا‘ جبکہ محمد اظہار الحق کی رائے میں ''میرا لڑکپن اور شباب بھی اسی پنڈی میں گزرا۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ پنڈی اتنا دل نشیں تھا۔ لوگ نیویارک‘ لندن اور استنبول پر کالم لکھتے ہیں۔ پیرس اور فرینکفرٹ اور روم کو یاد کرتے ہیں۔ شاید صدیقی نے اپنی گلیوں‘ اپنی عمارتوں‘ اپنے شہروں اور اپنے ہیروز پر لکھا اور یوں لکھا کہ آپ بیتی کو جگ بیتی کر دکھایا‘‘۔ اس کے بعد اور کسی رائے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی‘ ماسوائے اس کے کہ اس چمنستان کی جی بھر کے سیر کی جائے۔ سرورق سعدیہ راحت سعید نے بنایا ہے۔ حرفِ سپاس مصنف کا قلمی ہے ‘جبکہ دیباچہ فتح محمد ملک کا تحریر کردہ ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!
تیز بارش میں
ایک صاحب گھر میں رکھی مرغیوں سے بہت تنگ تھے۔ ایک دن کہنے لگے: اس گھر میں اب میں رہوں گا یا مرغیاں۔ یہ کہہ کر وہ باہر کی طرف چل دیئے ‘جس پر بیوی بولی‘ اتنی تیز بارش میں آپ کہاں جائیں گے---؟
کچھ اور مرغیاں
جنگِ عظیم دوم کے دوران ایک زور دار دھماکہ ہوا تو میاں بیوی کی آنکھ کھل گئی۔ میاں بولے: کیا ہوا؟ پڑوس میں کہیں بم پھٹا ہے! بیوی نے جواب دیا:خدا کا شکر ہے‘ میاں بولے: میں سمجھا مرغیوں کو بِلّا پڑ گیا ہے۔
زود فہمی
ایک سردار صاحب کہیں سے بھاگے بھاگے آ رہے تھے‘ سر سے خُون بہہ رہا تھا کہ راہ میں ایک اور سردار صاحب مل گئے‘ جنہوں نے پوچھا: سردار جی‘ کیا ہوا؟ یار ہونا کیا تھا‘ پچھلے چوک میں بہت سے لوگ جمع تھے‘ میں بھی ان میں جا گھُسا کہ اتنے میں کسی نے مجھے ایک زور دار تھپڑ رسید کر دیا۔ میں نے خیال کیا‘ یہاں کوئی معاملہ ہے۔ اس کے بعد کسی نے مجھے سر سے اُونچا اُٹھا کر پکّی سڑک پر دے مارا تو میں نے سوچا‘ کوئی گڑ بڑ ہے ‘ لیکن ایک نے میرے سر پر لاٹھی دے ماری تو میں نے کہا: بیڑہ غرق‘ یہاں تو لڑائی ہو رہی ہے!
اور‘ اب آخر میں ابرارؔ احمد کی یہ نظم:
اجنبی جگہیں
اجنبی مٹی میں
کشادہ دلی اور انتظار کی مہک ہوتی ہے
دیکھی ہوئی زمینوں کی دھول اور مبہم مانوسیت
آوازیں بڑھتی ہیں
ہمارے کپڑوں سے لپٹ جانے کو
دریچے‘ آنکھیں بن جاتے ہیں
ایک اجنبی باس
الوہی سرشاری سے
ہمارے مساموں میں اتر جانے کو بے چین ہو جاتی ہے
اجنبی جگہوں کو ہم یوں دیکھتے ہیں
جیسے ہمارے حافظے میں ان کے خواب دبے ہوں
جیسے مکانوں سے اٹھتے دھویں کے پاس کہیں
ہمارے لیے ضیافت کا اہتمام ہو
ہرجانب دروازے کھلے ہوں
جن میں ہم داخل نہیں ہو پاتے
اجنبی جگہیں
سب سے زیادہ مناسب ہوتی ہیں
آنسو بہانے اور یاد کرنے کو
انہیں‘ جو سانس کی طرح ساتھ رہے
اور پتھر کی طرح اجنبی ہو گئے---
بانہیں پھیلائے بُلاتی رہتی ہیں یہ جگہیں
فراق کے گیتوں سے لبریز
ہوائوں کی خنکی بن کر
اور ہم---
اپنے اردگرد کے شور میں سن نہیں پاتے
خود اٹھائی ہوئی دیواروں سے کبھی نکل نہیں پاتے
اور ایک روز
اسی لاتعلق زمین میں خاموش کر دیئے جاتے ہیں!
آج کا مقطع
کوئی اہلِ کرامات ہو جو‘ ظفرؔ
اس زمیں کو ذرا آسمانی کرے!