"ZIC" (space) message & send to 7575

لاہور شہرِ پُر کمال

یہ کتاب محمود الحسن نے مرتب کی ہے اور ''قوسین‘‘ لاہور نے چھاپی ہے جو اردو ادب کے تین لیجنڈ تخلیق کاروں کرشن چندر‘ راجندر سنگھ بیدی اور کنہیا لال کپور کے ذکرِ خیر اور دلآویز تاثرات پر مشتمل ہے۔ انتساب مولانا صلاح الدین احمد اور نذیر احمد چودھری کے نام ہے۔ پسِ سرورق تحریر کے مطابق لاہور راوی کنارے ہی نہیں بستا مدتوں سے لوگوں کے دلوں میں بھی بستا آیا ہے۔ کبھی اسے جنتِ دیگر قرار دیا گیا اور کبھی ایسا شہر جس کے بارے میں کہنا پڑے کہ جو لاہور نہیں دیکھ سکا وہ دنیا میں آیا ہی نہیں۔ اردو کے دو بڑے فکشن نگاروں‘ کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی اور ایک اہم مزاح نگار کنہیا لال کپور نے بڑی محبت اور حسرت سے لاہور کا ذکر کیا ہے‘ 1947ء میں ان تینوں کو لاہور سے جدا ہونا پڑا اور واپس آنا نصیب نہ ہوا‘ اس کے باوجود لاہور ان کے دلوں میں ہمیشہ شاد و آباد رہا۔
نقوش میں کرشن چندر نے لکھا تھا کہ لاہور میں رہ کر کوئی بوڑھا نہیں ہو سکتا۔ وہ میرا سدا جگمگاتا ہوا فانوس بدن شہر اپنی لافانی جوانی کے لیے مشہور ہے۔ اس شہر میں رہ کر کوئی بوڑھا ہوتا ہے تو بہتر ہے کہ وہ اس شہر کو چھوڑ دے اور منڈی بہائوالدین‘ بستی چھپڑاں والا یا چک نمبر چار سو بیس میں جا کر سکونت اختیار کر لے اور لاہور کے نام کو بٹہ نہ لگائے۔عصمت چغتائی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں بیدی نے کچھ یوں کہا: میں نے ان کی کہانیاں پڑھیں تو بہت متاثر ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ راستے میں کوئی آدمی گزرتا تو میں اس سے پوچھتا تھا ''تم کرشن چندر ہو؟‘‘ یقین مانیے میں ایک دن پنجاب پبلک لائبریری گیا تو میں نے دیکھا کہ آدمی بہت پڑھ رہا ہے۔ میں نے پوچھا یہی کرشن چندر ہوگا۔ میں نے اس سے پوچھا ''کیا آپ کرشن چندر ہیں؟‘‘ تو وہ کہنے لگا میں تو ڈھونڈو جل ہوں (قہقہہ) میں تو حیران رہ گیا۔ پھر مجھے پتا چلا کہ وہاں ایک ''کیریئر‘‘ نامی رسالہ تھا جس کے ایڈیٹر کرشن چندر تھے۔ میں وہاں گیا اور کہا آپ کرشن چندر ہیں؟ وہ کہنے لگے: تم راجندر سنگھ بیدی ہو؟ پھر ہم دونوں گلے مل گئے۔ یہ کرشن چندر سے میری پہلی ملاقات تھی‘‘۔
دسمبر 1953ء میں احمد راہی کی پنجابی شاعری کا مجموعہ ''ترنجن‘‘ شائع ہوا۔ اس پر کرشن چندر نے احمد راہی کو لکھا: آپ کی کتاب میرے پاس کیا پہنچی یوں سمجھیے سارا پنجاب چل کر آ گیا ہے۔ راجندر سنگھ بیدی کا ادارہ سنگھ پبلشرز لمیٹڈ فسادیوں نے برباد کر دیا۔ کرشن چندر کے سفر کلکتہ کے بارے میں ڈاکٹر احمد حسن لکھتے ہیں: چند مہینوں کے لیے کرشن چندر کلکتے بھاگ گئے۔ ان کی خواہش تھی کہ جہاز میں ملازمت مل جائے‘ خواہ قلی کی حیثیت سے۔ خواہ ملّاحوں کے زمرے میں۔ وہ ہر صورت ہندوستان سے باہر جانا چاہتے تھے...راجندر سنگھ بیدی نے لکھا: عشق کے لیے لاہور سے بہتر کوئی جگہ دنیا میں نہیں۔ 1947ء کی داروگیر میں وہ بُرے حال بانکے دہاڑے جان بچاتے لاہور سے چلے گئے پر اس کی یاد انہیں مرتے دم تک تڑپاتی رہی۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں وہ لاہور کے ذکر پر پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ یکم ستمبر 1910ء کو لاہور میں آنکھ کھولنے والے اس ادیب نے انسان کے ہاتھوں انسان کا خون بہتے دیکھا اور اس قدر گہرا اثر قبول کیا کہ وقتی طور پر قوت گویائی سے محروم ہو گیا... بیدی لکھتے ہیں: جب ڈاک خانے میں کام کرتا تھا تو ڈیوٹی کے گھنٹے نہ ہونے کے برابر تھے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ سترہ اٹھارہ گھنٹے ڈیوٹی دینا پڑتی تھی۔ کام کی کوئی حد نہیں تھی۔ ہر طرح کا کام کرنا پڑتا تھا۔ چٹھیاں چھانٹو‘ فائلیں اِدھر سے اُدھر لے جائو۔ افسروں کے خط ان کے گھروں تک پہنچائو۔ بڑا بُرا حال ہو جاتا تھا۔ تھک کر‘ رات کو گھر پہنچ کر یوں لگتا تھا کہ اب بستر سے اٹھا نہیں جائے گا۔ پھر جب میری ڈیوٹی منی آرڈر وصول کرنے والی کھڑکی پر لگی تو بھاگ دوڑ ذرا کم ہو گئی۔ اس کام کے زمانے میں ایک لطیفہ بھی ہوا تھا۔ لوگوں سے منی آرڈر اور روپے وصول کرنے کے بیچ ہی میں کہانی بھی لکھا کرتا تھا۔ ایک دن یہی حرکت کر رہا تھا کہ کسی نے سو روپے منی آرڈر کرنے کے لیے فارم دیا۔ فارم لے کر رسید بنا دی اور سو روپے لینے بھول گیا۔ حساب کیا تو خبر ہوئی کہ سو روپے کم ہیں۔ سب کہانی وہانی بھول گیا۔ اس دن کے تمام فارموں کے پتے لکھے اور لوگوں سے پوچھتا پھرا۔ پھر وہ آدمی جس نے سو روپے نہیں دیے تھے اور رسد لیے گیا تھا جب ملا تو کہنے لگا کہ سردار جی‘ اوروں کے بارہ تو بارہ بجے ہی بجتے ہیں مگر لگتا ہے تمہارے بارہ سارا دن ہی بجے رہتے ہیں۔
یہ ناگوار ملازمت چھوڑ کر انہوں نے ریڈیو کے لیے ڈرامے لکھے۔ سکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے ریڈیو میں کام کیا۔ لاہور ریڈیو میں پطرس بخاری نے ملازمت دلا دی لیکن وہاں کے ڈائریکٹر نے پچاس روپے تنخواہ مقرر کی جس پر بیدی مطمئن نہ ہوئے۔ وہ ڈیڑھ سو سے کم کسی صورت لینے کو تیار نہیں تھے۔ بخاری کی مداخلت سے یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا۔ نامور ادیب مستنصر حسین تارڑ نے یہ بتا کر ہماری معلومات میں اضافہ کیا کہ انہیں انور سجاد نے بتایا تھا کہ جب وہ ہندوستان گئے اور بمبئی میں بیدی سے ملے تو یہ ان کے چل چلائو کا زمانہ تھا۔ بیدی نے ان سے کہا کہ ان کا لاہور جانے کو بہت جی چاہتا ہے‘ اس پر انور سجاد نے کہا کہ جم جم آئیں تو وہ بولے کہ اب لاہور میں مجھے کون پہچانے گا۔ انور سجاد نے جواب دیا کہ آپ آئیں تو سہی‘ لوگوں کی بڑی تعداد آپ کا سواگت کرنے کے لیے موجود ہوگی۔ یہ سن کر بیدی زار و قطار رونے لگے۔
کنہیا لال کپور لکھتے ہیں: لاہور کا تصور کرتے ہی دل میں ایک ہُوک اٹھتی ہے ۔اس شہر کو تو کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی نے بھی رہ رہ کر یاد کیا ہے جو یہاں سے نکلے تو پھر ہندوستان کے بڑے شہروں میں ان کا ٹھور ٹھکانہ رہا۔ کنہیا لال کپور کا معاملہ دونوں سے ہٹ کر ہوا اور موگا (بھارتی پنجاب) جیسی خشک اور علمی فضا کے اعتبار سے بے آب و گیاہ زمین پر آباد ہو گئے۔ ان سے جب کوئی موگا جیسے بن میں جابسرام کرنے کی وجہ پوچھتا تو وہ یہ کہہ کر دل کو تسلی دے لیتے کہ جب تک ہندوستان لاہور کا ثانی پیدا نہیں کرتا میرے لیے ہندوستان کے تمام شہر اور قصبے برابر ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ کرشن چندر‘ راجندر سنگھ بیدی اور کنہیا لال کپور لاہور کی یاد میں تڑپتے‘ سمساتے رہے مگر دوبارہ ان کا اس شہر میں پھیرا نہ لگا۔ مجتبیٰ حسین کے مضمون سے بھی کپور کی لاہور سے محبت کا پتا چلتا ہے جو اُسے اس شہرِ بے مثال سے تھی۔ اُنکے بقول: دروغ بر گردنِ راوی ان کی لاہور سے محبت کا یہ عالم ہے کہ رات کو لاہور کی طرف پیر کر کے کبھی نہیں سوتے۔کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ جب یہ لاہور میں تھے تو نہ جانے کس طرح سو جاتے تھے۔ سنا ہے کہ موگا میں بھی لاہور ہی کے خواب دیکھتے ہیں۔ دہلی کو بڑی حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں‘ کہتے ہیں کہ انارکلی کی ایک جھلک پر سینکڑوں کناٹ پیلس قربان کیے جا سکتے ہیں۔
آج مقطع
بھول جاتے ہیں جہاں جا کے وہی کام ظفرؔ
اُس گلی میں وہاں جاتے تو کسی کام سے ہیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں