دو سال مشکل تھے، اب ترقی شروع ہوگی: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''دو سال مشکل تھے، اب ترقی شروع ہوگی‘‘ اور اگر اگلے دو سال بھی مشکل ہوئے تو ترقی اگلے دوسال کے بعد شروع ہو جائے گی اور اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ یہ ترقی کی اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کب شروع ہوتی ہے اور کب نہیں، ہم تو صرف اس کا انتظار کر سکتے ہیں جبکہ ہر چیز کے آنے سے پہلے اس کا انتظار ہی کیا جاتا ہے، اگرچہ ہم کسی انتظار کے بغیر ہی آ گئے تھے اور جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کیونکہ اصل بات نتیجے کی ہے جبکہ ہمارے آنے کے نتیجوں پر بھی مختلف سطحوں پر غور ہو رہا ہے جس کے نتیجے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ کیا نکلتا ہے یا یہ کہ نکلتا بھی ہے یا نہیں، کیونکہ اس کا مزاج بھی ترقی جیسا ہی ہے۔ آپ دریائے راوی کے قریب نیا شہر بسانے کے منصوبے پر گفتگو کر رہے تھے۔
خطے میں امن تب ہوگا جب
کشمیریوں کو حق ملے گا: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''خطے میں امن تب ہوگا جب کشمیریوں کو حق ملے گا‘‘ اور جس کی ابتدا ہم سے ہونی چاہیے کیونکہ ہم بھی خیر سے کشمیری ہیں اور آزادیٔ کشمیر کے سلسلہ میں بھائی صاحب کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں اور اسی لیے انہیں اُن کا حق بھی مل گیا ہے جس کے وہ لندن میں مزے لوٹ رہے ہیں جبکہ کسر اب صرف میرے حق کی ہے کہ وہ کب ملتا ہے جبکہ ہم نے اس ملک کی خدمت کا کوٹہ مکمل کر لیا ہے اور اسی لیے ہم یہ موقعہ دوسروں کو دینا چاہتے ہیں نیز اب اس ملک کی مزید خدمت ملک سے باہر رہ کر ہی کی جا سکتی ہے اور میں اس سلسلے میں بھائی صاحب کا ہاتھ بٹانے کے لیے بے چین ہوں جس کا موقعہ مجھے ملنا چاہیے۔ آپ اگلے روز آزاد جموں و کشمیر اسمبلی میں خطاب کر رہے تھے۔
وزیراعلیٰ سندھ کا ہو یا پنجاب کا، نیب
کا بُلانا مناسب نہیں: مراد علی شاہ
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ''وزیراعلیٰ سندھ کا ہو یا پنجاب کا، نیب کا بُلانا مناسب نہیں‘‘ کیونکہ اس سے ساری ترقی رُک جاتی ہے، وہ عوام کی ہو یا ارکانِ حکومت کی اور ہم احتساب کے حق میں ہیں لیکن ہمارا احتساب صرف عوام کر سکتے ہیں جو ہر الیکشن کے موقعہ پر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیتے ہیں اور جن سے ووٹ حاصل کرنے کیلئے ہمیں طرح طرح کے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں اور اگر ہم ایسا نہ کریں تو ملک میں پاپڑوں کی زبردست قلت پیدا ہو جائے جو ایک نیا بحران ہوگا جبکہ ملکِ عزیز پہلے ہی مختلف بحرانوں کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے جبکہ آئے روز کی بارش نے ستیاناس کر رکھا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان
یہ ہمارے مرحوم دوست سید انیس شاہ جیلانی کی تصنیف کا نیا ایڈیشن ہے جس میں محاکمہ مابین انیس و رئیس اور شکیل عادل زادہ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ترتیب ‘ پیشکش اور اہتمام راشد اشرف اور ڈاکٹر پرویز حیدر کا ہے۔ پسِ سرورق سید انیس شاہ جیلانی اور شکیل عادل زادہ کی تصویر درج ہے۔ اسے فاضلیز بُک ٹمپل روڈ سے شائع کیا گیا ہے۔ انتساب منجانب مرتب والد صاحب اور والدہ صاحبہ کے نام ہے اور جسے سید ابو الحسن شاہ جیلانی فرزند سید انیس شاہ جیلانی کی محبتوں کی نذر کیا گیا ہے۔ سفر نامہ مقبوضہ ہندوستان 1993ء میں شائع ہوئی۔ اشاعت کے بعد رئیس امروہوی اور سید انیس شاہ جیلانی کے مابین کتاب کے نزاعی معاملات پر مراسلت کا آغاز ہوا ‘بعد ازاں اس مراسلت میں شکیل عادل زادہ بھی شامل ہو گئے۔ سو، اس اضافے نے کتاب کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے۔ سفر نامے کا زیادہ تر حصہ ہم قسط وار اپنے کالموں میں پیش کر چکے ہیں۔ اب یوں سمجھیے کہ یہ کتاب دو آتشہ ہو گئی ہے، اپنی تمام تر دلچسپیوں کے طفیل۔
نیکیاں
ایک شخص مر کر عالمِ بالا میں پہنچا تو اس کا حساب کتاب کر کے بڑے فرشتے نے چھوٹے فرشتے سے کہا کہ اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے، جس پر وہ بولا: جناب اس طرح نہ کریں، میں نے کئی نیکیاں بھی کر رکھی ہیں۔ مثلا؟ فرشتے نے پوچھا۔ تو وہ بولا: میں نے سردی سے ٹھٹھرتی ہوئی ایک بڑھیا کو دو روپے کا اخبار خرید کر اوڑھایا تھا۔ اس کے علاوہ؟ فرشتے نے پوچھا۔ میں نے ایک غریب بچے کو دو روپے کا قاعدہ خرید کر دیا تھا ‘وہ بولا۔ اس کے علاوہ؟ فرشتے نے پوچھا۔ میں نے ایک اپاہج گداگر کو ایک روپے کی بھیک دی تھی۔ اس نے جواب دیا۔ اس کے علاوہ؟ فرشتے نے پوچھا تو وہ بولا: کیا یہ نیکیاں مجھے جنت میں داخل کرنے کے لیے کافی نہیں؟ اس نے سوال کیا۔ اسے پانچ روپے دے کر دوزخ میں پھینک دو! بڑے فرشتے نے کہا۔
اور، اب آخر میں علی شیران کی غزل:
سفر بخیر ہو، انجام تک پہنچ جائیں
خدا کرے یہ قدم شام تک پہنچ جائیں
سخن کا سارا سفر اس لیے کیا میں نے
کہ میرے ہونٹ ترے نام تک پہنچ جائیں
نئے جنوں کی اذیت بھی محترم ہے مجھے
گزشتہ زخم تو آرام تک پہنچ جائیں
مکانِ حُسن سے باہر بھی دیکھ ایسا نہ ہو
شریف لوگ در و بام تک پہنچ جائیں
خبر نہیں میری آواز پھر سنے کوئی
جنہیں پہنچنا ہے کہرام تک پہنچ جائیں
حسین رات کا مہتاب ڈوب جانے سے قبل
ستارے گردشِ ایام تک پہنچ جائیں
خدا کے بندے خدا تک پہنچ گئے ہیں علیؔ
جو رام والے ہیں وہ رام تک پہنچ جائیں
آج کا مقطع
راہ میں راکھ ہو گئیں دھوپ کی پتیاں ظفر
آنکھ بکھر بکھر گئی اپنی ہی آب و تاب سے