بزدار کہیں نہیں جا رہے: شیخ رشید
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''بزدار کہیں نہیں جا رہے‘‘ کیونکہ اگر وہ وزارت علیا سے فارغ بھی ہو گئے تو کہیں نہیں جائیں گے، پاکستان بلکہ پنجاب ہی میں رہیں گے اور یہ جو وزارت علیا کے عہدے کے لیے چند امیدواروں کے انٹرویوز لیے گئے ہیں تو اس لیے کہ حکومت بزدار صاحب کو سوچے سمجھے بغیر فارغ نہیں کرے گی، اگرچہ تعینات انہیں سوچے سمجھے بغیر ہی کیا گیا تھا بلکہ ہم سارے لوگ ہی سوچے سمجھے بغیر ہی لائے گئے تھے اور ہمیں لانے والے اب اس کا مزہ بھی بھگت رہے ہیں اور کچھ پتا نہیں کب تک بھگتتے رہیں گے۔ آپ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
یومِ آزادی پر ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہوگا: کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''یومِ آزادی پر ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہوگا‘‘ تا کہ مستقبل کی غلطیوں کے لیے پوری پوری گنجائش پیدا کی جا سکے جبکہ سیاستدان کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ مستقبل پر نظر رکھے اور یومِ ِآزادی پر یہ سبق سیکھنا اس لیے ضروری ہے کہ اس سے ہمیں غلطیوں کی بھی مکمل آزادی ہو گی جبکہ غلطی کرنا تو ویسے بھی بشری تقاضا ہے‘ جسے ہر انسان پوری رضا و رغبت کے ساتھ پورا کرتا ہے کیونکہ بندہ بشر اپنے آخری سانس تک بندہ بشر ہی رہتا ہے اور یہی اس کا طرّۂ امتیاز بھی ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
آٹا، چینی اور پٹرول جیسی اشیا مافیاز
کے کنٹرول میں کیوں ہیں: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''آٹا، چینی اور پٹرول جیسی اشیا مافیاز کے کنٹرول میں کیوں ہیں‘‘ اور یہ بات میں نے اپنے وزیراعلیٰ سے ہی پوچھی تھی لیکن انہوں نے بھی اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ حکومت تو ہماری ہے اور یہ چیزیں کنٹرول مافیاز کے میں ہیں یا خود حکومت ہی کا دوسرا نام مافیا ہے یا بہرحال، ہم دونوں کے درمیان یہی طے پایا ہے کہ خود مافیاز سے پوچھ لیا جائے کہ ملک میں اور جو اتنی چیزیں موجود ہیں تو انہوں نے سب کو چھوڑ کر آٹا، چینی اور پٹرول پر ہی کیوں قبضہ جما رکھا ہے، اور ان سے درخواست کی جائے گی کہ وہ دیگر اشیا پر بھی توجہ دیں کیونکہ ورائٹی ویسے بھی اچھی چیز ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز یوم ِآزادی پر اپنا پیغام جاری کر رہے تھے۔
شفاف احتساب کو فروغ دینا ہوگا ورنہ آنے والی
نسلیں معاف نہیں کریں گی: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''شفاف احتساب کو فروغ دینا ہوگا ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی‘‘ جو پہلے ہی ہمیں معاف کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتیں، کیونکہ ان کے آبا ئو اجداد اور خود ان کے ساتھ جو سلوک ہمارے ہاتھوں ہو گیا ہے، معاف تو کیا کرنا ہے‘ ان کا بس چلے تو ہمیں وہاں ماریں جہاں پانی تک نہ ملے جبکہ شفاف احتساب کا مطلب بھی یہ ہے کہ یہ کام قدرت پر چھوڑ دیا جائے ۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
پاکستان میں جمہوریت کے علاوہ
کوئی نظام نہیں چل سکتا: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے اور نواز لیگ کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''پاکستان میں جمہوریت کے علاوہ کوئی نظام نہیں چل سکتا‘‘ اور وہ بھی مغربی ممالک والی جمہوریت نہیں بلکہ ہمارے والی خالص جمہوریت ہے جس میں سیاسی لیڈر کا بیٹا سیاست میں حصہ لینے کا حق اپنے باپ سے بھی زیادہ رکھتا ہے، جس میں کرپشن جیسے فضول الزامات کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور یہ چونکہ ایک تجارت بھی ہے اس لیے ہر فرد جو وزیر وغیرہ بن جاتا ہے، یہی پیشہ اختیار کر لیتا ہے اور امیر روز بروز امیر اور غریب مزید غریب ہوتے جاتے ہیں اور الیکشن کے دوران ووٹ خریدے جاتے ہیں تا کہ ووٹر کی قدر افزائی ہو اور اُسے عزت بھی ملے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
اصل مسئلہ
چھٹی کا دن تھا اور ساحلِ سمندر پر بہت رش لگا ہوا تھا۔ ایک فیملی کے افراد نہا رہے تھے کہ ایک بڑی موج ایک آٹھ سالہ بچے کو بہا کر دور لے گئی جسے ایک شخص نے جان پر کھیل کر بچا لیا۔ لوگ جمع ہو گئے تھے کہ بچے کے باپ نے اس شخص سے ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا جس نے اس کے بچے کو ڈوبنے سے بچایا تھا، کچھ دیر بعد لوگ اس شخص کو لے آئے جو آتے ہی بچے کے باپ سے بولا: آپ میرا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہوں گے لیکن بچے کی جان بچانا میرا فرض تھا جو میں نے ادا کیا۔ شکریہ بھی دیکھا جائے گا‘ بچے کے باپ نے کہا۔ آپ مجھے یہ بتائیے کہ اس کی جیب میں جو اٹھنی تھی وہ کہاں ہے۔
اور، اب آخر میں حسین مجروحؔ کی شاعری:
نشاطِ قُرب نہ دے بخشش و عطا کی طرح
کہ مبتلا تو ہوں لیکن نہیں گدا کی طرح
عجب ہے غم کی معیشت کہ دل کو خوں کر کے
وصولتا ہوں میں اجرت بھی خوں بہا کی طرح
بدل رہے ہیں سبھی گرد و پیش کے موسم
مگر خمارِ گزشتہ ہے فیل ِپا طرح
ہنوز آتی ہے اس بے و فا کی سرمئی یاد
سوادِ ہجر میں برسی ہوئی گھٹا کی طرح
نجانے کس طرح کشکول بن گئے مجروحؔ
ہمارے ہاتھ جو تھے حجلہ ٔ دعا کی طرح
حفاظت کر رہا ہوں کس لیے میں اُن درختوں کی
جنہیں فکرِ خزاں کچھ ہے نہ پرواتپتے رستوں کی
یہ کس کے حُسن کی گرمی سے بام و در دہکتے ہیں
الٰہی خیر ہو اس شہر کے آتش پرستوں کی
تعجب کیا اگر مائل ہوا ہے ترکِ رونق پر
کہ خوش آتی ہے دل کو ہمری ویران رستوں کی
نکل بھی جائیں کانٹے تو سفر کے بعد مدت تک
چُبھن زنجیر ہو رہتی ہے اکثر پاشکستوں کی
ہمیں مطلوب ہے صبحِ بہاراں بھی گلستاں میں
گوارا بھی خدائی ہے چمن میں شب پرستوں کی
دھریں الزام کیا مجروحؔ طوفاں کی شرارت پر
کہ ہے کشتی سے بڑھ کر ناخدا کو فکر تختوں کی
آج کا مقطع
اب اس میں گردِ سفر کا قصور کیا ہے، ظفر
روانہ میں ہی اگرکارواں کے بعد ہوا