اللہ نئے سال میں ہمیں حکمرانوں
سے چھٹکارا عطا فرمائے: مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''اللہ نئے سال میں ہمیں حکمرانوں سے چھٹکارا عطا فرمائے‘‘ کیونکہ انہیں نکالنے کا اور تو کوئی طریقہ کامیاب نہیں ہو سکا اور کسی طریقے پر ہم اکٹھے ہی نہیں ہو پا رہے بلکہ ہماری پارٹی کے دو ارکان نے سپیکر کو جو استعفے بھجوائے تھے‘ وہ ان سے بھی مکر گئے ہیں حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی ضمنی انتخاب لڑنا پڑ رہا ہے اور لگتا ہے کہ یہی حشر لانگ مارچ کا بھی ہو گا، اور والد صاحب کا پاسپورٹ بھی منسوخ ہونے والا ہے لہٰذا یہ صحیح معنوں میں ہمارے لیے دعا کا مقام ہے۔ آپ اگلے روز نئے سال پر قوم کو مبارکباد دے رہی تھیں۔
سندھ حکومت پی پی کیلئے آکسیجن کا سلنڈر ہے: فردوس عاشق
معاونِ خصوصی وزیراعلیٰ پنجاب فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''سندھ حکومت پی پی کے لیے آکسیجن کا سلنڈر ہے‘‘ جبکہ ہم نے سلنڈر کے بجائے کنکشن ہی لے رکھا ہے، کیونکہ سلنڈر کو بار بار بھروانا پڑتا ہے، اس لیے کہ یہ ہمیں بھروانا آتا ہی نہیں؛ چنانچہ ہم دوسری کئی چیزوں کے ساتھ اب سلنڈر بھروانا بھی سیکھ رہے ہیں، اور ایک دن اس میں کامیاب ہو کر بھی دکھا دیں گے بلکہ ہم نے تو اپنے لیے وینٹی لیٹر کا بھی انتظام کر رکھا ہے اور ایک طرح سے قرنطینہ ہی میں بیٹھے ہوئے ہیں تا کہ اپوزیشن کے وائرس سے محفوظ رہیں، اللہ ہمیں ہر بلا سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین۔ آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
مقدمات ختم کرنے کا کہنے کو این آر او مانگنا کہتے ہیں: رانا ثناء
سابق وزیر قانون پنجاب اور ن لیگ پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ ''مقدمات ختم کرنے کا کہنے کو این آر او مانگنا کہتے ہیں‘‘ حالانکہ ہمیں تو مقدمات کی بھی پروا نہیں ہے بلکہ ہر پیشی پر ایسی رونق لگ جاتی ہے جس سے مردہ جسم میں جان پڑ جاتی ہے، کچہری سے باہر استقبال ہوتا ہے، پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتی ہیں اور روح پرور نعرے لگائے جاتے ہیں اور ایک خواہ مخواہ کی پبلسٹی ہو جاتی ہے ورنہ مقدمات ختم کرنے اور این آر او مانگنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے جبکہ مقدمات ختم کرنے میں حکومت کا اپنا ہی فائدہ ہے اور ہمیشہ کی طرح ہم حکومت کے فائدے ہی کی بات کرتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
قانون توڑنے والے عناصر کے خلاف
بلا امتیاز کارروائی کی جائے گی:عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''قانون توڑنے والے عناصر کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے گی‘‘ اس لیے ہماری نظریں ہر وقت اپوزیشن پر رہتی ہیں کیونکہ ان کا ہر کام اور ہر بات قانون شکنی ہوتی ہے جبکہ بلا امتیاز کارروائی کا مطلب یہ ہے کہ یہ امتیاز نہیں کیا جائے گا کہ قانون شکنی کا ارتکاب ہوا ہے یا نہیں بلکہ نیت دیکھ کر ہی کارروائی کا آغاز کر دیا جائے گا چونکہ حکومت پر قدرت کی خاص عنایات ہوتی ہیں لہٰذا اسے کسی کی نیت کا بھی فوراً پتا چل جاتا ہے۔ اس لیے اپوزیشن اگر قانون شکنی کا خیال بھی دل میں لائے گی تو اسے قانون شکنی ہی سمجھا جائے گا اور کارروائی شروع کر دی جائے گی۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزیراعظم مستعفی ہوں اور نئے انتخابات کے
شیڈول کا اعلان کریں: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم مستعفی ہوں اور نئے انتخابات کے شیڈول کا اعلان کریں‘‘ اور یہ امتیاز خاص طور پر ہم وزیراعظم کو دے رہے ہیں کیونکہ مستعفی ہونے کے بعد تو وزیراعظم کچھ بھی نہیں کر سکتا کیونکہ وہ وزیراعظم رہتا ہی نہیں جبکہ ہمارے اپنے حالات خاصے دگرگوں ہیں، جیسا کہ نواز لیگ نے مجھے اپوزیشن اتحاد کا سربراہ بنا کر فریب دیا، پی ڈی ایم کی جماعتیں میرے پیچھے تو کیا لگتیں، وہ ایک دوسرے کے پیچھے بھی نہیں لگ رہیں جس سے سارے خواب منتشر ہو کر رہ گئے ہیں۔ آپ اگلے روز مسلم لیگ فنکشنل کے جنرل سیکرٹری محمد علی درانی سے ملاقات کر رہے تھے۔
ادبِ لطیف
لیجنڈری جریدے ادبِ لطیف کے نئے دور کا دوسرا شمارہ حسین مجروح کی ادارت میں شائع ہو گیا ہے جس میں ملک کے نامور تخلیق کاروں کی نگارشات شامل ہیں، غواصی (نقدِ ادب) کے عنوان سے مضمون لکھنے والوں میں غلام حسین ساجد، جمیل احمد عدیل، ڈاکٹر امجد طفیل، ڈاکٹر طارق ہاشمی اور وجاہت تبسم شامل ہیں۔ نظم نگاروں میں سرمد صہبائی، افتخار بخاری، نصیر احمد ناصر، نسیمِ سحر، علی محمد فرشی، اسلم طارق، یاسمین حمید، جواز جعفری اور دیگران جبکہ افسانہ نگاروں میں رشید امجد، اے خیام، نیلم احمد بشیر، نجم الدین احمد اور دیگران جبکہ حصۂ غزل میں صابر ظفر، محمد اظہار الحق، جلیل عالی، اعجاز کنور راجہ، ناصر بلوچ، رفیق سندیلوی، شناور اسحاق، حمیدہ شاہین، خاکسار اور دیگران کی تخلیقات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ امجد علی شاکر، ڈاکٹر نجیب جمال، گل نو خیز اختر اور دیگران تخلیق کاروں میں شامل ہیں اور 'صارفیت اور ادب‘ کے عنوان سے مدیر کا پیش لفظ ہے۔
اب آخر میں اسی شمارہ میں سے محمد اظہار الحق کی یہ دو غزلیں:
خس کو پہچاننے میں کھائی ہے ٹھوکر اس نے
مجھ نکمّے کو رکھا خس کے برابر اُس نے
میرے جاسوس تو پکڑے ہی نہیں جا سکتے
یونہی پکڑا مرا معصوم کبوتر اُس نے
بیضۂ مرغ بھی جو کر نہیں سکتے بریاں
ان کی تحویل میں دے ڈالے ہیں لنگر اُس نے
جب بھی کم اصل کوئی تخت پہ بیٹھا ہے یہاں
اپنی ہی جنس کا بدلا ہے مقدر اُس نے
اک مری آنکھ میں ڈالا تھا اک اپنے دل میں
دو ہی رکھے ہوئے تھے جیب میں پتھر اس نے
٭......٭......٭
دعا مانگی ہے رو کر‘ دیر تک سجدہ کیا ہے
یہیں عرضی گزاری ہے یہیں شکوہ کیا ہے
نہیں چھوڑی کبھی اس خانوادے نے یہ دہلیز
یہیں پر زندگی اورموت کا سودا کیا ہے
زمانے ہو گئے جائے اماں بدلی نہیں ہے
جو وعدہ تھا‘ اسے ہر نسل نے ایفا کیا ہے
رسد کے جتنے مرکز ہیں ہمارے ہاتھ میں ہیں
وفا اک جنس ہے ہم نے جسے مہنگا کیا ہے
رجا کی جلتی بُجھتی روشنی اور گھُپ اندھیرا
اسی ننھے دیے سے پار اک صحرا کیا ہے
آج کا مقطع
صبح سی ہر دم کیے رکھتا ہے جو ہر سُو‘ ظفرؔ
دیکھنے میں اس کا اپنا شام جیسا رنگ ہے