عوام کو تنہا نہیں چھوڑوں گا، ہر محاذ پر آواز بلند کریں گے: شہباز
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''عوام کو تنہا نہیں چھوڑوں گا، ہر محاذ پر آواز بلند کریں گے‘‘ کیونکہ اگر عوام کو تنہا چھوڑا جائے تو ان کا مزاج ہی خراب ہو جاتا ہے اور وہ بات ہی نہیں سنتے، اگرچہ اب بھی وہ میری بجاے بھائی صاحب کی بات سنتے ہیں کیونکہ ان کی قربانیاں میرے سے زیادہ ہیں جبکہ تازہ قربانی پاکستان میں موجود جائیداد اور بینک اکائونٹس کی نیلامی، اور ضبطی ہے جبکہ لندن فلیٹس پر تو ان کے برخورداران نے قبضہ کر رکھا ہے اور ان کے پیسے بھی ادھر اُدھر کر لیتے ہیں۔ آپ اگلے روز جیل سے رہا ہونے کے بعد استقبال کرنے والوں سے خطاب کر رہے تھے۔
جنوبی پنجاب کے عوام کا حق ان کی دہلیز پر : فردوس عاشق
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''حکومت جنوبی پنجاب کے عوام کا حق ان کی دہلیز پر لوٹا رہی ہے‘‘ اور جو گھروں کے مالک نہیں ہیں اور ان کا حق حکومت پناہ گاہوں میں لوٹا رہی ہے جن میں وہ مقیم ہیں یا جہاں اب انہوں نے رہائش اختیار کرنا شروع کر دی ہے لیکن ایک ہی دہلیز پر حقوق کی اس قدر بھیڑ لگ جاتی ہے کہ آپس میں گڈ مڈ ہو کر کچھ پتا نہیں چلتا اور کسی کا حق کوئی اٹھا کر لے جاتا ہے اور کسی کا کوئی، اور دوسرے اپنے حق کے انتظار میں شب و روز دہلیز پر ہی پڑے رہتے ہیں کیونکہ حق کے آنے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا۔ آپ اگلے روز کچھ دیگر وزراء کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
حکومت جان بوجھ کر اسمبلی کا ماحول خراب کر رہی ہے: کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر اور مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''حکومت جان بوجھ کر اسمبلی کا ماحول خراب کر رہی ہے‘‘ حالانکہ شاہد خاقان عباسی یہ ماحول سازگار بنانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں اور ان کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے کہا ہے کہ سپیکر کے ساتھ جو کچھ بھی کیا جذبات میں آ کر نہیں بلکہ پوری سنجیدگی سے کیا ہے جبکہ ہم لوگ سمجھ رہے تھے کہ وہ ایسا مذاق مذاق میں ہی کر رہے ہیں نیز انہوں نے جو تا مارا نہیں صرف دکھایا تھاجو شاید انہوں نے اُس روز نیا خریدا تھا اور جس کا ڈیزائن دکھا کر وہ سپیکر صاحب کو متاثر کرنا چاہتے تھے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
کچھ الٹی، کچھ سیدھی
ڈاکٹر محمد اسحاق وردگ پشاور اور اس کے گردونواح میں اپنی موجودگی کا احساس دلا چکے ہیں اور اب مزید پر پُرزے نکال رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شعری لوازمات سے مکمل طور پر ہتھیار بند ہو کر وہ ان ہتھیاروں کا استعمال کس طرح سے کرتے ہیں۔ اپنی کوئی الگ پہچان بناتے ہیں یا اسی غول بیابانی میں شامل ہو کر گم ہو جاتے ہیں جو بالعموم جہاں تہاں موجود ہے۔ انہیں ابھی وہ دلیری بھی حاصل کرنا ہے جو شاعر کو صحیح معنوں میں شاعر بناتی ہے اور جس کی عدم موجودگی میں کوئی منفرد اور غیر معمولی بات شاعر کے ذہن میں آئے تو وہ اسے اس لیے شعری جامہ نہ پہنا سکے کہ لوگ کیا کہیں گے حالانکہ شعر کوئی عرضداشت نہیں بلکہ ایک چیلنج ہوتا ہے جو قاری کے ساتھ ساتھ خود شاعر کے اپنے لیے بھی ہوتا ہے۔ نہ ہی شاعر اینٹر ٹینر ہوتا ہے بلکہ وہ داد اور بیداد سے بے نیاز ہو کر اپنا کام کرتا ہے۔ پھر شعر اگر بن نہ رہا ہو تو اسے بگاڑا تو جا ہی سکتا ہے لیکن آخر شعر کو بگاڑا بھی کہاں تک جا سکتا ہے کیونکہ اس کے بگاڑ میں بھی بنائو کی ایک صورت موجود ہوتی ہے، میں خراب شعر کی وکالت نہیں کرتا لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ جو شاعر خراب شعر کہنے کی ہمت نہیں رکھتا اس سے عمدہ شعر کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے۔ ایسی شاعری تخلیق کرتے جانے کا کوئی فائدہ نہیں جیسی شاعری پہلے ہو چکی ہے یا اب ہو رہی ہے۔ شاعر یہ فیصلہ خود کرتا ہے کہ اسے لکیر کا فقیر ہو جانا ہے یا سطحِ شعر پر کوئی تھرتھری بھی پیدا کرنی ہے اور اگر وہ اس کوشش میں ناکام بھی ہو جائے تو اسے ناکامی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ تو آتشِ نمرود میں بے خطر کود پڑنے والی بات ہے کہ اس میں جل کر بھسم ہو جانا بھی اس چھلانگ کو یادگار بنا دیتا ہے۔
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی نظم:
مجھے اچھے لگتے ہیں
مجھے اچھے لگتے ہیں/ بادل۔۔۔۔ جب وہ برستے ہیں/ اور آنکھیں/ جن میں کوئی بھی بسیرا کر سکتا ہے/ بکریاں اور بچے/ جو سڑک پار کر جاتے ہیں/ اور نہیں دیکھ پاتے اُس آہنی ہاتھ کو/ جو ان کے تعاقب میں دوڑا چلا آتا ہیمجھے اچھے لگتے ہیں/ فراغت اور دکھ سے بھرے دن/ اور راتیں/ جب دور دور تک بارش ہوتی ہے/ اور آبائی مکانوں کی وہ شام/ جب بہنوں کو رخصت کیا جاتا ہے/ پہاڑ کے پار کے اندھیارے کی جانب/ آنسو اور دُھند۔۔۔ جن میں صاف / دیکھا جا سکتا ہے/ اور وہ دل۔۔۔۔۔ جنہیں نشانہ بنایا جاتا ہے/ اور مٹی۔۔۔۔ جس کی جانب ہمیں لوٹنا ہے
مجھے اچھے لگتے ہیں/ دریچے جن سے ہوا گزرتی ہے/ دروازے جو کبھی بند نہیں ہوتے/ اور دوست جن کے کاندھوں پر/ ہمیشہ ہاتھ رکھا جا سکتا ہے/ اور تم۔۔۔۔۔/ لپکتے ہوئے ہاتھوں اور دنیا کے درمیان/ کیا کچھ موجود ہے!
نوٹ:کل‘ آج کا مقطع اس طرح پڑھا جائے
ظفرؔ، سرِ شام تھی اور آسماں جیسے ڈھک گیا تھا
کہ ہم پرندے تھے اور ہزاروں میں آ رہے تھے
آج کا مطلع
رنگ تھوڑا سا ہے کالا تیرا
اور، زیادہ ہے اُجالا تیرا