"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور ابرار احمد

پاکستان مشکل حالات سے گزر رہا ہے: شوکت ترین
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ ''پاکستان مشکل حالات سے گزر رہا ہے‘‘ اور یہ حالات مشکل ترین بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ حالات کسی کے اختیار میں نہیں ہوتے ہر کوئی حالات کے اختیار میں ہوتا ہے اس لیے انہیں چھیڑنا نہیں چاہیے مبادا یہ زیادہ خراب اور مشکل ہو جائیں ، اسی لیے ہم ان میں کوئی دخل اندازی نہیں کرتے بلکہ ان کے ساتھ پورا پورا تعاون کررہے ہیں اور اب تو ہم رفتہ رفتہ ان کے عادی بھی ہوتے جا رہے ہیں اور ان میں کوئی بھی تبدیلی یا بہتری شاید ہمارے معمولات ہی کو بدل کر نہ رکھ دے، اس لیے ہم ان کے ساتھ گزارہ کر رہے ہیں اور یہ ہمارے ساتھ۔ آپ اگلے روز کراچی میں تاجروں سے خطاب کر رہے تھے۔
لوگ تین سال پہلے کے پاکستان
کو یاد کررہے ہیں: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''لوگ تین سال پہلے کے پاکستان کو یاد کررہے ہیں‘‘ اور کانوں کو ہاتھ بھی لگا رہے ہیں کہ ان کی آنکھوں کے سامنے کیا کچھ ہوتا رہا اور وہ خاموشی سے تماشا دیکھتے رہے اور اب کہیں جا کر انہیں اس بات کی سمجھ آ رہی ہے کہ وہ سارے وسائل ہمارے تھے جن کے ساتھ اتنا کھلواڑ ہو رہا تھا اور وہ اس دور کو بھلانے کی پوری کوشش بھی کرتے ہیں لیکن ایسا نہیں کر سکتے بلکہ جس کاریگری کے ساتھ وہ سب کچھ کیا گیا تھا، اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی ذہن کی حدود کیا کیا ہیں اور وہ کیا کچھ کر سکتا ہے۔ آپ اگلے روز چودھری احسن اقبال اور دیگر رہنمائوں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
احتساب کا عمل رکنے والا نہیں: فرخ حبیب
وزیر مملکت فرخ حبیب نے کہا ہے کہ ''احتساب کا عمل رکنے والا نہیں‘‘ اگرچہ یہ کچھ ایسا نتیجہ خیز بھی ثابت نہیں ہو رہا اس لیے اپوزیشن سمیت کسی کو اس پر اعتراض بھی نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ایک صحت مندانہ مصروفیت مہیا کرتا ہے کیونکہ دونوں کے پاس کرنے کا کوئی کام ہے ہی نہیں جبکہ حکومت کا سارا کام تو اپنے آپ ہی چل رہا ہے اور اپوزیشن بھی اس کے بغیر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی اور مکھیاں مارتی ہی نظر آئے گی، احتساب عدالتوں کے چکر لگانے سے ان کی آب و ہوا تبدیل ہوتی رہتی ہے جو ان کی صحت کے لیے بھی بے حد ضروری ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
دو کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے پہنچ گئے: رانا تنویر
ن لیگ کے مرکزی رہنما رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ ''دو کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے پہنچ گئے‘‘ اور ہم جیسے عاجز و مسکین لوگ جو لکیر کے اوپر نظر آ رہے ہیں تو یہ محض قدرت کی دین ہے جس میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں جبکہ قدرت کے طریقے بھی اپنے ہیں کہ ہمارے معززین کو پتا ہی نہیں چلتا اور کوئی ان کے اکائونٹس میں کروڑوں روپے جمع کرا دیتا ہے، ہم چھپر پھاڑ کر دینا اسی کو کہتے ہیں ۔ آپ اگلے روز فیروزوالا میں لیگی ورکروں سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
بزرگ شہریوں کے تجربے اور مشاہدات
سے فائدہ اٹھانا چاہیے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''بزرگ شہریوں کے تجربے اور مشاہدات سے فائدہ اٹھانا چاہیے‘‘ کیونکہ وہ خود تو ایسا کرنے سے معذور ہیں جبکہ وہ مہنگائی اور بیروزگاری سے لڑتے لڑتے ہی بوڑھے ہوئے ہیں جس سے ان کے سوچنے سمجھنے کی اہلیت بری طرح سے متاثر ہوئی ہے اس لیے جو کچھ اپنے تجربے اورمشاہدات کے حوالے سے انہیں یاد رہ گیا ہے ان سے گزارش ہے کہ وہ ہم سے اس ضمن میں تعاون کریں کیونکہ ہم کسی بھی قسم کے تجربے یا مشاہدے سے سراسر محروم ہیں جبکہ تجربہ کام کرنے سے آتا ہے اور ہم ابھی سیکھ رہے ہیں اور دن رات اسی کام میں لگے ہوئے ہیں تا کہ ہم بھی کام کریں اور تجربہ حاصل کریں۔ آپ اگلے روز لاہور میں سیف سٹی اتھارٹی کے کنٹرول روم کا معائنہ کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی نظم:
خاموشی
ایک اجنبی زمین پر/ زندگی کا آغاز کرتے ہوئے/ اس نے سوچا ہوگا/ ان جمع ہو جانے والی اینٹوں سے/ وہ ایک ایسا گھر بنائے گا/ جس کے وسط میں/ فوارے ہوں گے/ راہداریاں اور پھول ہوں گے/ تنہائی کی شاموں میں/ دیوار سے لگ کر/ وہ بادلوں اور دوستوں کا/ انتظار کیا کرے گا/ اس صبح/ جب اس نے خوابوں سے بوجھل/ اپنی آنکھیں کھولی ہوں گی/ تو نہیں جانتا ہو گا/ کہ سورج کے آئینے سے اپنے چہرے / اور زندگی کو/ آخری مرتبہ دیکھ رہا ہے/ اور نہ یہ کہ اس کا سفر/ بہت دور تک پھیلا ہوا ہے/ جب سے دل اس کے سینے کے پنجرے سے/ زور زور سے ٹکرایا ہوگا/ اس نے اس کی منتیں کی ہوں گی/ سمجھایا ہوگا۔۔۔۔/ جب اس کی آنکھیں بند ہو جائیں گی/ تو اس نے گاڑی سے باہر/ دور تک پھیلے میدان/ اور درخت دیکھے ہوں گے/ اور گھروں سے اٹھتا ہوا دھواں/ اور نظر کی حد سے پرے/ بیلوں میں ڈھکا ہوا اپنا گھر/ بارش میں بھیگتی، گھومتی ہوئی سیڑھیاں/ اور اس نے ایک خواب دیکھا ہوگا/ اندھیرے میں ڈوبتے چلے جانے کا/ ایک بچی کے پھیلے ہوئے بازو/ اور جھولے/ ڈوبتے اور ابھرتے ہوئے کچھ چہرے/ گڈ مڈ ہوتی کچھ تصویریں/ اب اسے معلوم ہوا ہوگا/ کہ یہ تو ابد کا اندھیرا ہے/ اور اسے کچھ بھولے ہوئے گیت/ یاد آئے ہوں گے/ اور دوست۔۔۔۔/ اور گزری ہوئی کچھ محفلیں/ محبت کرنے والے کچھ لوگ/ بچپن، آبائی مکان اور مہربان ہاتھ/ اس کی طرف بڑھتے ہوئے/ مسکرا دیا ہوگا/ اس نے سوچا ہوگا/ ''ٹھیک ہے‘‘/ اور مسکراہٹ کے وسط میں/ ایک خاموشی / اس کے ہونٹوں پر/ منجمد ہو گئی ہوگی/ خاموشی، جو مٹی کی آواز ہے/ خاموشی، جو سب آوازوں کا باطن ہے/ خاموشی۔۔۔۔/ جو اس کی مٹی کے چہار جانب/ پھیل گئی ہے۔۔۔۔
آج کا مقطع
میں روز اپنے کناروں سے دیکھتا ہوں ، ظفرؔ
کہاں سے دور ہے دنیا ، کہاں سے دور نہیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں