مفت پٹرول پر کٹوتی‘ قربانی کے لیے شروعات
اپنے آپ سے کروں گا: شہبازشریف
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''مفت پٹرول پر کٹوتی‘ قربانی کیلئے شروعات اپنے آپ سے کروں گا‘‘ جبکہ ہمیں تو قربانیاں دینے کی عادت شروع ہی سے پڑی ہوئی ہے جن میں سب سے بڑی قربانی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کیلئے تھی‘ بے شمار چیلنجز تھے کہ اگر فلاں تاریخ تک لوڈشیڈنگ ختم نہ ہوئی تو اپنا نام تبدیل کر لوں گا اور جس کے بعد اتنی بار نام تبدیل کرنا پڑا کہ اصل نام مجھے یاد ہی نہ رہا تھا جبکہ میری دوسری بڑی قربانی بینک اکاؤنٹس اور اثاثے ہیں جن میں بے حد اضافہ بھی ہو سکتا تھا لیکن قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں نے انہیں بڑھنے نہیں دیا۔ آپ اگلے روز گوادر میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
جس نے ہماری حکومت کے خلاف ماسٹر پلان
بنایا‘ اس نے عمران خان کی بڑی خدمت کی: شیخ رشید
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''جس نے ہماری حکومت کے خلاف ماسٹر پلان بنایا اس نے عمران خان کی بڑی خدمت کی‘‘ اور امید ہے کہ آئندہ بھی یہ خدمت جاری رہے گی کیونکہ عمران خان نے آئندہ بھی حکومتیں بنانی ہیں اور انہیں آئندہ بھی ایسی خدمت کی ضرورت پڑتی رہے گی اورماسٹر پلان بنانے میں بہت محنت اورعرق ریزی درکار ہوتی ہے‘ اس لیے ہم یہ پلان بنانے والوں کے بے حد ممنون و شکرگزار ہیں کہ عمران خان کی خدمت کیلئے انہیں اتنا کشٹ اُٹھانا پڑا اور امید ہے کہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رکھا جائے گا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ملک بحرانوں سے نکل جائے گا مگر
اس میں وقت لگے گا: مریم اورنگزیب
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''ملک بحرانوں سے نکل جائے گا مگر اس میں وقت لگے گا‘‘ البتہ وقت کے بارے ہم کچھ نہیں بتا سکتے کہ کتنا وقت لگے گا کیونکہ وقت پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے جبکہ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ خود حکومت بحرانوں سے نکلنا چاہتی بھی ہے یا نہیں کیونکہ اسے بحرانوں میں رہنے کی جو عادت پڑی ہوئی ہے اس کا بھی خیال رکھنا پڑے گا جبکہ ویسے بھی جب سے ملکِ عزیز وجود میں آیا ہے اس پر نازک وقت ہی رہا ہے، اس لیے ہم محض امید ہی کر سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
٭... غل غپاڑہ کرتے تین افراد کو پولیس نے پکڑ کر عدالت میں پیش کیا تو مجسٹریٹ نے ایک سے پوچھا کہ تم کیا کررہے تھے؟ اس نے جواب دیا کہ میں تربوز جھیل میں پھینک رہا تھا، دوسرے سے یہی سوال کیاگیا تواس نے بھی یہی جواب دیا کہ میں تربوز جھیل میں پھینک رہا تھا، تیسرے سے سوال کیا تو وہ بولا:
'' جناب! میں ہی تو وہ تربوز ہوں جسے یہ دونوں جھیل میں پھینک رہے تھے‘‘!
٭... کچھ کائو بوائز ہوٹل میں بیٹھے تھے کہ ایک نے کہا کہ وہ جو سامنے والی میز پر بیٹھا ہے مجھے بہت بُرا لگتا ہے۔ ساتھیوں نے کہا کہ وہاں تو پانچ آدمی بیٹھے ہیں، تمہاری مراد کس سے ہے؟ وہ بولا جس کے داڑھی ہے۔ جواب ملا کہ داڑھی تو سب نے رکھی ہوئی ہے، تواس نے کہا کہ وہ جس کے سر پر ٹوپی ہے، اسے بتایا گیا کہ ٹوپیاں بھی سب نے پہن رکھی ہیں، تو وہ بولا کہ وہی شخص جس نے گلے میں سکارف پہنا ہوا ہے، اسے بتایا گیا کہ سکارف بھی سب کے گلے میں ہے، اس پر اُس نے پستول نکالا اور ان میں سے چار کو پھڑکا دیا اور بولا کہ وہ جو بچ گیا ہے‘ مجھے زہر لگتا ہے!
٭... ایک 75سالہ انگریز کے یوم پیدائش کی تقریب میں کچھ لوگ جمع تھے، ایک صحافی نے اُس سے پوچھا، اس عمر میں آپ کی اتنی اچھی صحت کا راز کیا ہے؟
''میں نے عمر بھر شراب نوشی سے پرہیز کیا ہے‘‘ اس نے جواب دیا۔
اتنے میں ساتھ والے کمرے سے برتن توڑنے اور مغلظات بکنے کی آوازیں آنا شروع ہوئیں تو صحافی نے پوچھا۔''یہ کیا ہے؟‘‘
''یہ میرے والد صاحب ہیں، بدمست ہو کر یہی کچھ کیا کرتے ہیں‘‘ اس نے جواب دیا۔
٭... ایک صاحب ہوٹل میں بیٹھے مے نوشی میں مصروف تھے کہ اس دوران اُن کا ایک دوست آ گیا جس نے ان سے پوچھا۔
''یہ کب پتا چلتا ہے کہ اب مدہوشی ہو گئی ہے؟‘‘
''یہ جو سامنے والی میز پر دو آدمی بیٹھے ہیں‘ جب آپ کو چار نظر آنے لگیں تو سمجھیں کہ مدہوشی ہو گئی ہے‘‘ اُن صاحب نے جواب دیا۔
''لیکن سامنے والی میز پر تو ایک ہی آدمی بیٹھا ہے‘‘ دوست بولا۔
اور‘ اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی یہ نظم:
مٹی سے سے ایک مکالمہ
ماں کہتی ہے ؍ جب تم چھوٹے تھے تو ایسے اچھے تھے ؍ سب آباد گھروں کی مائیں ؍ پیشانی پر بوسہ دینے آتی تھیں ؍ اور تمہارے جیسے بیٹوں کی خواہش سے ؍ ان کی گودیں بھری رہا کرتی تھیں ہمیشہ ؍ اور میں تمہارے ہونے کی راحت کے نشے میں ؍ کتنی عمریں چُور رہی تھی ؍ اک اک لفظ مرے سینے میں اٹکا ہے ؍ سب کچھ یاد ہے آج ؍ کہ میں اک عمر نگل کر بیٹھا ہوں ؍ عمر کی آخری سرحد کی بنجر مٹی ؍ جب سے ماں کے ہونٹوں سے گرتے لفظوں میں کانپتی ہے ؍ میری سانس تڑپ اٹھتی ہے ؍ اس کے مٹتے نقش مرے اندر ؍ کہرام سی اک تصویر بنے ہیں ؍ زندگیوں کے کھوکھلے بن پر ؍ آنسوؤں لپٹی ہنسی مرے ہونٹوں پہ لرزتی رہتی ہے ؍ اچھی ماں ؍ عمر کے چلتے سائے کی تذلیل میں ؍ تیرے لہو کے رس کی لذت ؍ تیرے غرور کی ساری شکلیں ؍ ان رستوں میں مٹی مٹی کر آیا ہوں ؍ پتھریلی سڑکوں پہ اپنے ہی قدموں سے ؍ خود کو روند کے گزرا ہوں ؍ میرے لہو کے شور میں تیری ؍ کوئی بھی پہچان نہیں ہے ؍ تیری اجلی شبیہ کچھ ایسے دھندلائی ہے ؍ تجھ سے وصل کی آنکھ سے ؍ بینائی زائل ہے ؍ میں تیرے دردوں کا مارا ؍ تیری ہی صورت میں بھی ؍ اک جیون ہارا
آج کا مقطع
یہ گھر جس کا ہے اس نے واپس آنا ہے ظفرؔ اس میں
اسی خاطر در و دیوار کو مہکائے رکھتے ہیں