اقتدار نہیں‘ خوشحال پاکستان چاہئے: نواز شریف
سابق وزیراعظم اور قائد مسلم لیگ (ن)میاں نوا ز شریف نے کہا ہے کہ ''اقتدار نہیں‘ خوشحال پاکستان چاہئے‘‘ لیکن کیا کیا جائے کہ اقتدار کے بغیر خوشحالی کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا جبکہ ملک میں یہ خوشحالی بار بار کے اقتدار کی وجہ سے ہی آئی ہے اور لوگ بھوک‘ ننگ اور مہنگائی کی وجہ سے موت کو گلے نہیں لگا رہے بلکہ اس وجہ سے کہ دنیا دُکھوں کا گھر ہے جسے چھوڑنے سے ہی سکھ حاصل ہو سکتا ہے اور اگر اقتدار مل جائے تو ملک کو ایک دفعہ پھر چار چاند لگا دیں گے اور اگر پانچواں چاند دستیاب ہو سکا تو وہ بھی لگا دیں گے۔ آپ اگلے روز نوابزادہ لشکری رئیسانی سے ملاقات کر رہے تھے۔
چلہ تو پورا ہوا مگر اثرات ابھی تک ہیں: شیخ رشید
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''چلہ تو پورا ہوا مگر اثرات ابھی تک ہیں‘‘ اور اگر پولیس کو اتنی بھاگ دوڑ نہ کرنا پڑتی اور میں کچھ عرصہ پہلے اور آسانی سے ہاتھ آ جاتا تو یہ چلہ کچھ نرم بھی ہو سکتا تھا اور اس کے اثرات بھی باقی نہ رہتے اور اگر دوسرے چلے کی ضرورت محسوس ہوئی تو متعلقہ احباب مجھے فون کر دیں‘ میں خود ہی حاضر ہو جاؤں گا جبکہ ویسے بھی آدمی کو زندگی میں ایک آدھ چلہ ضرور کھینچنا چاہئے جو صحت کیلئے بھی بہت ضروری ہے اور آدمی چاق و چوبند رہتا ہے جبکہ میں حفظانِ صحت کے اصولوں کا پوری طرح سے قائل ہوں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔
احمد مشتاق کی آمد
اردو غزل کے بے مثل شاعر احمد مشتاق‘ جو کافی عرصے سے امریکہ میں مقیم ہیں‘ کچھ دنوں کے لیے پاکستان آئے ہوئے ہیں اور اپنے دوستوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اگلے روز عزیزی محمود الحسن اپنی بیگم کے ہمراہ انہیں میرے پاس لائے۔ وہ میرے ہم عمر ہی ہیں لیکن شاعری میں مجھ سے سینئر ہیں۔ میں نے اپنے چوتھے کلیات کو ان کے نام سے منسوب کر رکھا ہے۔ ان کے صرف دو شعر یہاں نقل کروں گا جو مجھے اکثر ہانٹ کرتے ہیں ؎
چلتے چلتے جو تھکے پاؤں تو ہم بیٹھ گئے
نیند گٹھڑی پہ دھری‘ خواب شجر پر رکھا
جانے کس دم نکل آئے ترے رخسار کی دھوپ
دھیان ہر لحظہ تیرے سایۂ در پر رکھا
کبھی کبھی یہ حسرت میرے دل میں جاگتی ہے کہ کاش یہ شعر میں نے کہے ہوتے!
اگر تم مہرباں ہوتے
یہ مسعود تنہا کی غزلوں اور نغموں کا دوسرا مجموعہ ہے ۔ انتساب سویرا مسعود، اسوہ مسعود اور عظمیٰ مسعود کے نام ہے۔ ''گفتنی‘‘ کے عنوان سے پیش لفظ شاعر کا قلمی ہے۔ مجموعے کا آغاز اس شعر سے کیا گیا ہے ؎
میں جانتا ہوں زمانے کی بے نیازی کو
مجھے پتا ہے سفر میں کہاں ٹھہرنا ہے
شاعر نے نظم اور غزل دونوں اصناف میں طبع آزمائی کی ہے لیکن زیادہ زور غزلوں پر ہے۔ پسِ سرورق شاعر کی تصویر ان اشعار کے ساتھ درج ہے:
یہ وقت بدل جائے گا ایک روز یقینا
اب ہم پہ مسلط نہ ستم گار رہے گا
اس بار اکھڑ جائیں گے ایوانِ سیاست
دربار رہیں گے نہ یہ ادبار رہے گا
اور‘ اب اوکاڑا سے افتخار احمد کا تازہ کلام:
نعتِ سرکار ہے مرے دل میں
اور غزل وار ہے مرے دل میں
جسے کہتے ہیں اصل میں رحمت
موسلا دھار ہے مرے دل میں
ایک مکہ کی وادیوں میں ہے
اور اک غار ہے مرے دل میں
شکر ہے آلِ مصطفی کے لیے
پیار ہی پیار ہے مرے دل میں
چین کی نیند سو رہا ہوں میں
کوئی بیدار ہے مرے دل میں
ریگِ جاں میں نمی رہے گی ابھی
ہاں مگر سرسری رہے گی ابھی
تیرے ہونٹوں کا ذکر باقی ہے
شعر میں تازگی رہے گی ابھی
دل کو دیپک بنا کے بیٹھے ہیں
شہر میں روشنی رہے گی ابھی
دل کو اک درد سینچنے لگا ہے
دل کی رنگت ہری رہے گی ابھی
بات بننے میں وقت باقی ہے
جان و دل پر بنی رہے گی ابھی
دھوپ میں دو بدن پگھلتے ہیں
برف پھر بھی جمی رہے گی ابھی
ایک کونپل ہے شاخ پر پھوٹی
ایک کھڑکی کھلی رہے گی ابھی
تازہ تازہ یقین ٹوٹا ہے
بدگمانی بڑی رہے گی ابھی
آج کا مقطع
ویسے رہنے کو تو خوش باش ہی رہتا ہوں ظفرؔ
سچ جو پوچھیں تو حقیقت میں نہیں رہ سکتا