عوام محکوم نہیں!

کم از کم گزشتہ تین دہائیوں سے تو یہی کچھ چلتا چلا آ رہا ہے کہ جو بھی سیاسی جماعت حزبِ اختلاف میں ہوتی ہے‘ وہ عوام کو بلند بانگ دعوے کرکے اور سبز باغ دکھا کر یہ یقین دلانے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر عام آدمی کی تمام محرومیاں ختم کر دے گی، مہنگائی کے جن کو آتے ہی بوتل میں بند کرکے دودھ اورشہد کی نہریں بہا دے گی اور تمام بیروزگاروں کو نوکریاں دینے کے ساتھ ملک میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں انقلاب برپا کر دیا جائے گا۔ سیاسی رہنما وعدے اور دعوے کرتے ہیں کہ یہ کر دیں گے، وہ ہو جائے گا۔ عوام جو بہت سادہ لوح ہیں‘ ہمیشہ سیاسی نعروں اور جھوٹے دعووں کے چکر میں پھنس جاتے ہیں ، بار بار دھوکا کھانے کے باوجود روایتی سیاست دانوں کے وعدوں پر یقین کر لیتے ہیں۔
جب بھی ملک میں عام انتخابات قریب آتے ہیں تو سیاسی جماعتیں عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مختلف حربے آزماتی ہیں۔ ووٹروں کو قائل کرنے کیلئے سیاسی ڈیروں‘ حویلیوں اور محلات کے دروازے عوام کیلئے کھول دیے جاتے ہیں، اپنے علاقے میں ترقیاتی کاموں کی منصوبہ بندی شروع کر دی جاتی ہے، غریبوں کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانیاں کرائی جاتی ہیں، امیدواروں کے در پر غریبوں کیلئے دستر خوان سج جاتے ہیں لیکن جب الیکشن ہو جاتے ہیں، پولنگ کا دن گزر جاتا ہے تو سیاستد انوں کا ایک عام شہری سے جڑا مفاد بھی ختم ہو جاتا ہے۔ پھر وہی ہوتا ہے جو ہمیشہ سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ جو ہار جائے‘ وہ اختیارات نہ ہونے کا جواز بنا کر لوگوں سے دوری اختیار کر لیتا ہے اور جو جیت جائے‘ وہ سکیورٹی کا بہانہ بنا کر عام آدمی کیلئے اپنے دروازے بند کر لیتا ہے۔ 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف نے انصاف، میرٹ اور کرپشن کے خاتمے کے نعرے پر نوجوان نسل کو متحرک کیا اور تبدیلی کے نام پر ووٹ لیے، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ساڑھے تین برس تک صرف بیورو کریسی اور پولیس افسران کے تبادلے ہی ہوتے رہے۔ عمران خان وزیراعظم بننے کے بعد ماضی کے حکمرانوں کی طرح‘ تمام مسائل و بحرانوں کا الزام سابق حکومتوں پر عائد کرتے ہوئے سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے کے چکر میں ہی پھنسے رہے۔ کپتان شاید یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اب وہ کم ازکم دس سال تک اقتدار میں رہیں گے اور ان کے سیاسی مخالفین ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ اقتدار میں آنے کے بعد وہ عوام سے کیے گئے تبدیلی کے وعدے کو بھول گئے۔ پہلے سو دنوں میں انقلاب برپا کرنے کے دعوے کرنے والے خان صاحب حکومت میں آنے کے بعد یہ کہنے لگے کہ 70 سال کے مسائل پانچ برس میں حل نہیں ہو سکتے۔ مہنگائی کا طوفان آیا تو انہوں نے کہا کہ میں آلو‘ پیاز کے ریٹ چیک کرنے کے لیے وزیراعظم نہیں بنا۔ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی نے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں (قریب ایک سال قبل) مہنگائی کے خلاف کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا تھا۔ اس کے بعد جمعیت علمائے اسلام (ف) نے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں لانگ مارچ کیا اور وفاقی دارالحکومت میں دھرنا دیا۔ بعد ازاں مسلم لیگ (ن) نے میاں شہباز شریف اور مریم نواز کی قیادت میں بڑے بڑے احتجاجی جلسے کیے‘ مظاہرے کیے اور پھر لاہور سے اسلام آباد تک ''مہنگائی مارچ‘‘ کر کے تبدیلی سرکار پر شدید تنقید کی۔
2022ء کے آغاز سے قبل ہی پی ٹی آئی حکومت کو ہٹانے کیلئے فائنل رائونڈ شروع ہو چکا تھا۔ آخری حربے کے طور پر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی، اسی دوران تحریک انصاف کے اندر سے منحرف اراکین کا ایک فارورڈ بلاک سامنے آیا، کئی اتحادی جماعتوں نے حکومت کا ساتھ چھوڑ دیا اور یوں عدم اعتماد پر ووٹنگ کے بعد عمران خان وزیراعظم پاکستان سے سابق وزیراعظم بن گئے۔ متحدہ اپوزیشن حکمران اتحاد کی صورت میں حکومتی بینچوں پر آ گئی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد شہباز شریف وزیراعظم بن گئے۔ مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ کرنے والے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی وزیر خارجہ کا قلمدان سنبھال لیا۔ مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف لانگ مارچ کرنے اور دھرنا دینے والی جمعیت علمائے اسلام کو بھی اقتدار میں شیئر مل گیا۔ حکومت بدلی تو عوام نے سوچا کہ شاید اب ان کے دن بھی بدل جائیں گے، مہنگائی کم ہو گی اور بیروزگاری کی شرح نیچے آئے گی۔ امریکی ڈالر کی پرواز تھم جائے گی بلکہ اسے ریورس گیئر لگ جائے گا۔ پٹرول کی قیمت بھی سو روپے سے کم ہو جائے گی۔ نئے وزیراعظم آلو‘ پیاز کے ریٹس پر بھی چیک رکھیں گے اور عوام کو دو وقت کی روٹی سکون سے ملے گی۔ حکمران اتحاد نے حکومت سنبھالنے کے فوری بعد تو بڑی پھرتیاں دکھائیں‘ وزیراعظم شہباز شریف نے ''پاکستان سپیڈ‘‘ سے کام کرنے کے دعوے کیے، لیکن جوں جوں دن گزرتے گئے‘ موجودہ حکمران اتحاد بھی بے نقاب ہوتا گیا۔ نہ تو ڈالر کا ریٹ نیچے آیا اور نہ پٹرول سستا ہوا۔ کچھ عرصہ اسحاق ڈار کی وطن واپسی کے نام پر عوام کو سہانے سپنے دکھائے گئے، پھر ایک دن وہ بھی پاکستان پہنچ گئے اور وزارتِ خزانہ کا قلمدان سنبھال لیا۔ آتے ہی وہ ڈالر کو بریک بلکہ ریورس گیئر لگانے میں کامیاب بھی دکھائی دیے مگر یہ خوش گمانی بھی چند ہی روز قائم رہ سکی۔ اس کے بعد ڈالر نے ایسی رفتار پکڑی کہ ڈار صاحب کے قابو میں بھی نہ آیا۔ موجودہ حکومت نہ تو ڈالر کو ایک سو اسّی روپے پر لانے کادعویٰ سچ کر سکی اور نہ ہی پٹرول کی مد میں عام آدمی کو خاطر خواہ ریلیف پہنچا سکی۔ موجودہ حکومت کے سارے دعوے اور وعدے اس بری طرح ناکام ہوئے کہ سو روپے دھڑی (پانچ کلوگرام) ملنے والا پیاز دو سو چالیس روپے فی کلو گرام تک جا پہنچا۔ مٹن تو دور کی بات‘ برائلر مرغی بھی پانچ سو فی کلو کی حد پار کر کے عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو گئی اور اب تو دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہو گیا ہے کیونکہ آٹے کی قیمت لگ بھگ دو گنا ہو چکی ہے اور گندم کا بحران بھی سر پر منڈلا رہا ہے۔
ایک سال پہلے جس طرح عمران خان مہنگائی و بیروزگاری سمیت ہر مسئلے پر سابق حکومتوں اور عالمی مارکیٹ کو موردِ الزام ٹھہرا رہے تھے‘ اسی طرح موجودہ حکمرانوں نے بھی اپنی تمام ناکامیوں کا الزام کپتان اور انٹرنیشنل مارکیٹ پر لگانا شروع کر دیا ہے۔ وزیراعظم بننے کے بعد ''پنجاب سپیڈ‘‘ کو ''پاکستان سپیڈ‘‘ میں بدلنے اور چھ ماہ میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے دعویدار شہباز شریف نے بھی اب یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ تیس سال کے مسائل چند ماہ میں ختم نہیں ہو سکتے‘ ان کے لیے وقت درکار ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب بھی ہمارے سیاستدان اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو عوام سے ہمدردی جتاتے ہیں اور بلند بانگ دعوے بھی کرتے ہیں، غریبوں کیلئے نہ صرف اپنے دروازے کھول دیتے ہیں بلکہ ووٹ لینے کیلئے غریب کی دہلیز تک بھی پہنچ جاتے ہیں مگر وہی سیاستدان حکومت میں آنے کے بعد یکسر بدل جاتے ہیں۔ پھر امیر و غریب کی تفریق شروع ہو جاتی ہے، حکمرانوں اور رعایا میں خلیج پیدا ہو جاتی ہے اور آہستہ آہستہ لوگ مایوسی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ یوں تو یہ سب کچھ قیام پاکستان سے چلا آ رہا ہے مگر گزشتہ تقریباً تین دہائیوں سے یہی سیاسی جماعتیں باریاں لے رہی ہیں جن کو عوام کے مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اب حالات شدید خرابی کی طرف جا رہے ہیں۔ عوام نے دیکھ لیا کہ ساڑھے تین سال تبدیلی سرکار نے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا، پھر عدم اعتماد کے بعد پی ٹی آئی کی مخالف ساری پارٹیاں اقتدار میں آ گئیں لیکن اب ہر گزرتا دن عوام کی مایوسی میں شدید اضافہ کر رہا ہے۔ مہنگائی کئی گنا بڑھ چکی ہے‘ شدید توانائی بحران درپیش ہے۔ امن و امان کی صورت حال پھر سے بگڑنے لگی ہے۔ اب غریب شہری خود کو کسی ایسے ٹرک کے پیچھے بھاگتا دیکھ رہے ہیں جس کے پیچھے بتی ہی نہیں ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی انداز میں اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں اور عوام مسائل کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ حکمران صرف اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے قانون سازی نہ کریں بلکہ عوامی مسائل پر توجہ دیں اور مہنگائی کنٹرول میں لائیں۔ یہ صورتحال یونہی برقرار رہی تو پھر یہ بات بھی یاد رکھیں کہ عوام بھی کسی کے محکوم نہیں۔ پانچ برس تک ظلم و جبر سہنے والے شہری الیکشن والے دن ووٹ کے ذریعے بدلہ ضرور چکائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں