پاکستان میں توانائی بحران بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ موجودہ معاشی حالات میں اس بحران پر قابو پانا آسان نہیں، اس کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنانے اور سورج کی روشنی کا صحیح استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت نے تقریباً ایک ماہ قبل توانائی بچت پالیسی کا اعلان کیا تھا لیکن پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مخالف سیاسی جماعت کی حکومتیں ہونے کے باعث اس قومی پالیسی پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ اس سے قبل بھی بجلی کے شارٹ فال کے فوری اور آسان حل کے لیے حکومت نے کئی بار سورج کی روشنی کا صحیح استعمال کرنے اور رات کو 70 فیصد غیر ضروری لائٹنگ کی بچت کے لیے کاروباری مراکز رات کو جلدی بند کرنے کے احکامات جاری کیے۔ کئی بار اس پالیسی پر کامیابی سے عملدرآمد بھی شروع ہوا لیکن پھر چند ہی ہفتوں میں اس فیصلے کو پس پشت ڈال دیا گیا حالانکہ یہ واحد پالیسی تھی جس سے نہ صرف بجلی کی بچت ہو سکتی ہے بلکہ قوم میں نظم وضبط بھی پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ اس وقت ہماری 80 فیصد مارکیٹیں دوپہر کے بعد جا کر کھلتی ہیں اور پھر کم ازکم نصف شب تک تمام بازار اور شاپنگ مالز کھلے رہتے ہیں جس سے بجلی کا لوڈ 70 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ وفاقی حکومت نے دسمبر 2022ء میں ملک بھر میں توانائی بچت پروگرام کے تحت شادی ہالز رات 10 بجے اور مارکیٹیں رات 8 بجے بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ توانائی کی کفایت شعاری کیلئے بھی پلان دیا گیا تھا۔ اس حوالے سے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزرا نے کہا تھاکہ قومی کفایت شعاری سے متعلق پالیسی بنائی جا رہی ہے، دنیا میں واحد ملک پاکستان ہی ہے جہاں رات دیر تک مارکیٹیں کھلی رہتی ہیں، تاجر بھی ہمارے بھائی ہیں، کسی کے ساتھ سختی سے نہیں نمٹا جائے گا۔ توانائی کی بچت کا یہ قومی پروگرام ہے، سنگین معاشی صورت حال کے تناظر میں ہمیں اپنی عادتوں میں تبدیلی لانا ہو گی۔ توانائی کی بچت اور کفایت شعاری پروگرام میں ملک کی معاشی نجات ہے، توانائی کی بچت کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں، ہمیں اپنے وسائل کے ضیاع کو روکنا ہو گا۔ نئی پالیسی کے تحت سرکاری اداروں میں 20 فیصد افرادی قوت گھر سے کام کرے تو 56 ارب روپے کی بچت ہو گی ، نئی توانائی پالیسی سے 62 ارب روپے کی بچت ہو گی۔ پرانے پنکھے 120 سے 130 واٹ بجلی استعمال کرتے ہیں جبکہ نئے پنکھے تقریباً 40 سے 60 واٹ بجلی استعمال کرتے ہیں، ان پنکھوں کے استعمال سے 15 ارب روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔ ایل ای ڈی بلب کے استعمال سے 23 ارب روپے کی بچت ہو گی، گھروں میں پنکھے اور ایئرکنڈیشنڈ کے استعمال میں بچت سے 8 سے 9 ہزار میگاواٹ بجلی بچائی جا سکتی ہے۔ کپیسٹی پیمنٹس کی مد میں 28 ارب ماہانہ بچت ہو گی، گیس فراہم کرنے والی کمپنیاں گیزر کے لیے گیس بچت کے آلات فراہم کریں گی، جس سے 92 ارب روپے سالانہ کی بچت ہو گی۔ متبادل توانائی پر چلنے والی سٹریٹ لائٹس سے 4 ارب روپے کی بچت ہو گی۔حکومت نے پٹرول کی بچت کے لیے ای بائیکس درآمد کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔ اس حوالے سے گزشتہ دنوں لاہور ہائیکورٹ نے بھی احکامات جاری کیے ہیں۔ عدالتِ عالیہ کے ریمارکس تھے کہ ہمیں اپنا لائف سٹائل تبدیل کرنا ہو گا۔ عدالت نے رات 10 بجے کے بعد کھلی رہنے والی مارکیٹوں پر 2 لاکھ روپے جرمانہ عائد کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ عدالت نے سی سی پی او لاہور سمیت دیگر افسران کو فوری طور پر ان احکامات پر عملدرآمد کروانے کا حکم جاری کیاجس کے بعد حکومت نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا کہ رات دس بجے کے بعد کھلی رہنے والی مارکیٹوں کو عدالتی حکم کے مطابق دو لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔
حکومتی اقدامات اپنی جگہ لیکن بطور شہری ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ قومی مفاد کی حامل پالیسیوں پر ازخود عمل کریں۔ ہمارا مذہب اسلام بھی ہمیں صبح سویرے رزق کی تلاش کیلئے نکلنے کا حکم دیتا ہے اور دن کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی تلقین کرتا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دنیا کے کئی غیر مسلم ممالک نے تو ان اسلامی اصولوں کو اپنی عملی زندگی میں اپنا کر دنیاوی ترقی و کامیابی حاصل کر لی لیکن ہم مسلمان اور حاملِ قرآن ہو کر بھی اسلامی اصولوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور یہی ہمارے بحرانوں کا سبب ہے۔ ہمارے ملک میں دوپہر بارہ بجے سے پہلے تو مارکیٹ کھلتی ہی نہیں‘ یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے شہریوں کی اکثریت صبح یا دن کے بجائے رات کو مغرب یا عشا کی نماز کے بعد خریداری کے لیے بازاروں کا رخ کرتی ہے کیونکہ ایک تو اس وقت تک وہ دن بھر کے کاموں سے فارغ ہو چکے ہوتے ہیں اور ان کے پاس خریداری کا وافر وقت ہوتا ہے۔ دوسرا‘ رات کو رنگ برنگی روشنیاں اپنے دلکش نظاروں سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہیں۔ دنیا کے اکثر مغربی ممالک نے اپنی عملی زندگی میں بعض اچھے (اسلامی) اصول اپنائے اور وہ دنیاوی ترقی کے زینے چڑھتے چلے جا رہے ہیں، ان ممالک کے لوگ ایمان کی روشنی سے تو محروم ہیں لیکن دن کی روشنی کا استعمال خوب کرنا جانتے ہیں۔ وہ فجر کی نماز کے بارے تو نہیں جانتے لیکن سحری کے وقت اٹھنا ان کامعمول ہے اور منہ اندھیرے (علی الصباح) ہی کام و کاروبار کے لیے گھروں سے نکل پڑتے ہیں اور سورج نکلنے سے پہلے اپنے کام کا آغاز کر لیتے ہیں۔ اسی طرح نوکری پیشہ مرد و خواتین بھی صبح سات بجے سے پہلے اپنی ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں۔ صبح تازہ دم ہونے کی وجہ سے نہ صرف ان کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے بلکہ ہشاش بشاش چہرے خوش اخلاقی کا تاثر بھی دیتے ہیں۔ وہاںطلوعِ آفتاب سے پہلے شروع ہونے والا کاروبارِ زندگی سورج کے غروب ہونے سے پہلے ختم ہو جاتا ہے اور شام سے پہلے تمام لوگ اپنا اپنا کام ختم کرکے گھروں میں پہنچ جاتے ہیں۔ شام کے بعد کوئی بازار یا شاپنگ مال کھلا نہیں ملتا‘ اس لیے جس کسی نے جو چیز خریدنی ہوتی ہے‘ وہ دن کو ہی خرید لیتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ شام کے بعد صرف ہوٹل یا کلب وغیرہ ہی کھلے مل سکتے ہیں۔ عام کاروباری مرکز کہیں کھلا نہ ہو گا۔ اس طرح وہ بجلی کی بچت کر لیتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ متعدد پسماندہ ممالک میں بھی بجلی کی اتنی لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی‘ جتنی ہمارے یہاں ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جب سے ہم نے دن کی روشنی کا بھرپور استعمال ترک کیا ہے تو ہماری کل بجلی کی پیداوار کا لگ بھگ 70 فیصد حصہ رات کو کمرشل لائٹوں پر ضائع ہو جاتا ہے حالانکہ اگر بجلی کا درست استعمال کیا جائے تو نہ صرف ہماری مجموی قومی پیداوار میں اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ ہمیں طویل لوڈشیڈنگ کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔
بات رات 8 بجے مارکیٹیں بند کرنے کی ہو رہی تھی‘ میں سمجھتا ہوں کہ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ ملک بھر میں عام مارکیٹوں کا نظام الاوقات صبح سات سے شام سات بجے تک کر دے۔ اس کے بعد صرف ریسٹورنٹس اور میڈیکل سٹورز ہی کھولنے کی اجازت ہو اور کریانہ سٹورز بھی شام سات بجے بند کر دیے جائیں۔ چند دنوں کی سختی کے بعد لوگ خود بخود اپنی خریداری کا وقت ٹھیک کر لیں گے۔ اس سے قوم میں نظم و ضبط پیدا ہو گا اور توانائی بحران بھی حل ہو جائے گا۔ وفاقی حکومت نے جب توانائی بچت پالیسی کا اعلان کیا تو اس وقت صوبائی حکومتوں بالخصوص پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت نے اس پالیسی پر عمل درآمد سے انکار کر دیا تھا مگر اب پنجاب اور کے پی کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں، دونوں صوبوں میں نگران حکومتوں کا قیام عمل میں آ چکا ہے، نگران وزرائے اعلیٰ حلف اٹھا چکے ہیں جن کا وفاق سے کوئی اختلاف نہیں ہے، لہٰذا اب وفاقی حکومت کو چاہئے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ سید محسن نقوی اور اعظم خان کو توانائی بچت پالیسی پر اعتماد میں لیں اور مارکیٹیں رات 8 بجے بند کرانے کے فیصلے پر سختی سے عمل کرایا جائے تاکہ 70 فیصد تک غیر ضروری طور پر استعمال ہونے والی بجلی بچائی جا سکے۔ اب نگران صوبائی حکومتوں اور انتظامیہ کی موجودگی میں وفاقی احکامات کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم ہو چکی ہیں لہٰذا اب ان قومی فیصلوں پر عمل درآمد ہو جانا چاہئے۔