پاکستان میں جس طرح ہائوسنگ کے شعبے میں مارکیٹنگ کمپنیوں نے اپنی جگہ بنائی اور خریداروں کے ساتھ سرمایہ کاروں کو بھی پلیٹ فارم مہیاکیا‘ اس طرح صنعتی شعبے کی پروموشن اور آگہی کے لیے خصوصی مارکیٹنگ کمپنیاں کام نہیں کر رہیں اور نہ ہی پاکستانی انڈسٹری کے حوالے سے کوئی مستند اعداد و شمار دستیاب ہیں، اس لیے کسی بھی صنعتی تجزیے کے لیے سرکاری اعداد و شمار پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے جو سو فیصد زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں صنعتی شعبہ ترقی کے بجائے تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ ہمیں بھی پاکستانی صنعت کے موجودہ حالات کا جائزہ لینے کے لیے حکومتی معلومات اور سرکاری جاری کردہ اعداد و شمار پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔
پاکستان اقتصادی جائزے کے مطابق جی ڈی پی میں صنعتی شعبے کا حصہ کم ہوکر 13 فیصد تک آ پہنچا ہے۔ جی ڈی پی میں صنعتی شعبے کے حصے میں کمی کا رجحان پچھلے پانچ سال سے جاری ہے جس دوران یہ لگ بھگ 13 فیصد سے کچھ اوپر رہا مگر غیر سرکاری رپورٹس کے مطابق ملکی جی ڈی پی میں صنعت کا حصہ 12 فیصد سے بھی نیچے گر چکا ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ سابق حکومت کی جانب سے برآمدات بڑھانے کے دعوے حقائق پر مبنی نہیں ہیں بلکہ اصلاً برآمدات کے حجم میں کمی واقع ہوئی ہے‘ جس کا اظہار صنعتی شعبے کی گراوٹ سے ہوتا ہے۔ صنعتی شعبے کی اس گراوٹ میں بہت سے عوامل کار فرما ہیں۔ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے لاگت میں اضافہ ہوا، اس وجہ سے مقامی قوتِ خرید میں کمی آئی۔ زرعی شعبے میں گراوٹ اور کئی فصلوں کی ہدف سے کم پیداوار کی وجہ سے زراعت کے ساتھ وابستہ صنعتیں بری طرح متاثر ہوئیں۔ روپے کی قدر میں کمی سے بر آمدات سستی ہونے کا ڈھنڈورا پیٹنے والے کم فہم اس حقیقت سے نابلد دکھائی دیتے ہیں کہ پاکستان کی پسماندہ صنعتیں اپنی پیداوار میں استعمال ہونے والے خام مال کا بیشتر حصہ درآمد کرتی ہیں اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے لاگت میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اب بھی یہی کچھ ہو رہا ہے جس کے واضح اثرات صنعتی شعبے کے جی ڈی پی کے سکڑتے حصے میں دکھائی دے رہے ہیں۔ اس گراوٹ کی ایک بڑی وجہ رواں مالی سال میں سرکاری ترقیاتی اخراجات میں ہونے والی بڑی کٹوتی بھی ہے جس کی وجہ سے جہاں ایک طرف بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے‘ وہیں دوسری طرف ترقیاتی منصوبے بند ہونے سے صنعتی شعبے پر بھی منفی اثرات پڑے ہیں۔ صنعت کے مختلف شعبوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ صورتِ حال مزید عیاں ہو جاتی ہے۔
صنعتی شعبے میں سب بڑا حصہ ٹیکسٹائل کے شعبے کا ہے جو کُل صنعتی شعبے کے 60 فیصد پر مشتمل ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ٹیکسٹائل کے شعبے میں 0.27 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی‘ جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ 2022ء کی غیر سرکاری رپورٹس اور زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ٹیکسٹائل یونٹس دھڑا دھڑ بند ہو رہے ہیں جس کا اظہار ٹیکسٹائل برآمدات میں ہونیوالی نمایاں کمی سے بھی ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سال 2018ء میں صرف پنجاب میں 125 ٹیکسٹائل یونٹس بند ہوئے۔ فیصل آباد کا پاور لومز سیکٹر ملک کا سب سے بڑا پاور لومز سیکٹر ہے‘ جس میں ہزاروں کی تعداد میں لومز کام کرتی ہیں اور لاکھوں محنت کشوں کا روزگار اس سے وابستہ ہے۔ اگرچہ 2020-21ء میں حکومتی رعایات سے اس سیکٹر میں کچھ تیزی دیکھنے میں آئی مگر پچھلے ایک سال سے کم و بیش تمام سیکٹرز بند پڑے ہیں اور ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد بیروزگار ہو چکے ہیں۔ تکنیکی پسماندگی کیساتھ ساتھ روپے کی قدر میں گراوٹ کی وجہ سے لاگت میں ہونیوالے اضافے، سستے چینی دھاگے اور کپڑے کی آمد، عالمی منڈی میں بڑھتی مسابقت اور کھپت میں کمی کے باعث یہ شعبہ ختم ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ 2022-23ء میں کپاس کی پیداوار میں بڑی کمی کی وجہ سے اس سے منسلک متعدد صنعتیں بند ہو چکی ہیں جن میں جننگ اور سپننگ ملیں بھی شامل ہیں۔ اکنامک ریویو کے مطابق مالی سال 2023ء میں کاٹن جننگ میں 12.74 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ تیار ٹیکسٹائل مصنوعات کی بات کی جائے تو اس میں کوئی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو نہیں ملا مگر ویلیو ایڈیشن کے حساب سے اس شعبے میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
آٹو موبائل انڈسٹری کی بات کی جائے تو رواں مالی سال میں اس شعبے میں 6.11 فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ کاریں بنانے والی تین بڑی عالمی کمپنیوں کی فروخت میں بڑے پیمانے پر کمی ریکارڈ کی گئی ہے‘ یہاں تک رواں مالی سال میں موٹر سائیکلوں کی فروخت میں بھی کمی کا رجحان دیکھا گیا۔ اس کی بڑی وجہ مقامی منڈی کی قوتِ خرید میں کمی اور روپے کی قدر میں کمی سے لاگت میں ہونے والا اضافہ ہے۔ ایک وقت میں کہا جاتا تھا کہ ٹریکٹرز کی پیداوار اور فروخت کسی بھی پسماندہ سرمایہ دارملک کی معیشت اور صنعت کی حالت جانچنے کا ایک معیار ہے۔ رواں مالی سال میں ٹریکٹر کی فروخت میں ریکارڈ کمی دیکھنے میں آئی اور ٹریکٹر بنانے والی تین بڑی کمپنیوں اور ان سے منسلک صنعتوں میں کام کرنے والے ہزاروں افراد کا روزگار دائو پر لگ چکا ہے۔
سٹیل کے شعبے کی بات کی جائے تو پاکستان سٹیل ملز تاحال بند پڑی ہے اور اس کو دوبارہ نجکاری کی فہرست میں شامل کیا جا چکا ہے۔ پاکستان سٹیل مل میں کام کرنیوالے ہزاروں محنت کشوں کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہے۔ ہر بار تنخواہ لینے کے لیے احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے جس کے بعد بھی ایک آدھ ماہ ہی کی تنخواہ نصیب ہو پاتی ہے۔ ملک کی باقی سٹیل انڈسٹری کی بات کی جائے تو رواں سال سٹیل انڈسٹری بھی مندی کا شکار رہی اور سٹیل مصنوعات بنانیوالے کئی چھوٹے پلانٹس بند ہو گئے۔ سٹیل انڈسٹری اور اس سے منسلک دیگر صنعتوں میں بحران کی ایک بڑی وجہ چین سے آنے والی سٹیل اور لوہے سے بنی تیار مصنوعات ہیں جو مقامی مال سے سستی ہیں۔ اس کے علاوہ ایران سے سٹیل اور سریے کی سمگلنگ کی وجہ سے بھی اس شعبے کو خاصی مشکلات کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں بڑی صنعتوں اور تعمیرات کے شعبے میں ہونیوالی گراوٹ بھی اس شعبے کی تنزلی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ دیگر صنعتوں میں بھی منفی گروتھ ریکارڈ کی گئی ہے جن میں فارماسیوٹیکل انڈسٹری میں 8.4 فیصد کی نمایاں کمی دیکھنے کو ملی۔ فوڈ اور تمباکو کی صنعت میں بھی 4.69 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ صنعت کا واحد شعبہ جس میں ترقی کی وجہ سے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق کُل صنعتی شعبے میں 1.4 فیصد تک ترقی ریکارڈ کی گئی‘ وہ الیکٹرانکس مصنوعات کا شعبہ ہے جس میں 23.7 فیصد کا بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا۔
پاکستان میں جب بھی صنعتی ترقی کی بات ہوتی ہے تو مقامی سرمایہ دار عوامی ٹیکس کے پیسے سے سبسڈیاں لینے پہنچ جاتے ہیں۔ ہر حکومت ان کے مفادات کی نگہبانی کرتی ہے اور جی بھر کے انہیں نوازا جاتا ہے۔ ہر نئی آنے والی حکومت سے پچھلے قرضے معاف کرانا ان کا وتیرہ بن چکا ہے۔ مہنگی بجلی اور گیس کا رونا رویا جاتا ہے‘ جس کے بعد بجلی اور گیس کے نرخوں میں ان سرمایہ داروں کو رعایتیں دی جاتی ہیں جبکہ عوام کے لیے آئے روز بجلی اور گیس مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ٹیکس چوری میں ان کی مثال ملنا مشکل ہے جبکہ بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار سے عوام کی جان تک نکال لی جاتی ہے۔ اس وقت جو حالات ہو چکے ہیں‘ کچھ بعید نہیں کہ سانس لینے پر بھی ٹیکس عائد کر دیا جائے۔ سرمایہ دار صنعتوں میں نئی ٹیکنالوجی اور مشینوں کے استعمال کا خیال تک دل میں نہیں لاتے اور آج بھی بیشتر صنعتی یونٹس ماضی بعید کی مشینیں استعمال کر رہے ہیں۔ صنعتوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے نام پر حکومت سے سستے قرضے لے کر سٹاک میں لگاتے ہیں یا رئیل اسٹیٹ میں انویسٹ کر دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ سب سرمایہ کاروں کی بات نہیں ہو رہی‘ مگر ایک غالب طبقہ ایسا ہی ہے۔ (جاری)