کسی بھی انسان کا رویہ اس کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے، یہ سوچ اور کردار کے رخ کو بھی متعین کرتا ہے۔ رویے کے ذریعے ہی انسان زندگی کو سمجھ پاتا ہے۔ رویوں کی تشکیل میں اردگر دکا ماحول، تعلیم، ذہانت، مزاج، مخصوص تجربات اور واقعات کا اہم کردار ہوتا ہے۔ عام آدمی جو کچھ سوچتا ہے اور جن چیزوں پر عمل کرتا ہے‘ وہ بہت حد تک اس کے رویوں کے زیر اثر ہوتا ہے۔ ہر انسانی رویہ چاہے وہ مثبت ہو یا منفی‘ اس کے اثرات ماحول پر مرتب ہوتے ہیں۔ عام طور لوگ اپنے رویے کی ذمہ داری دوسروں اور حالات پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دے دیتے ہیں، لیکن حقیقت میں انسان اگر زندگی میں کامیابی اور ترقی چاہتا ہے تو اسے اپنی سوچوں، خیالات اور رویوں کی ذمہ داری کو قبول کرنا ہو گا۔ اسے یہ سمجھنا ہے کہ وہ خود ہی اپنے تمام خیالات، سوچوں اور رویوں کا‘ چاہے وہ شعوری ہوں یا لاشعوری‘ ذمہ دار ہے اور اسے یہ ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ اگر بچہ تنگ کرتا ہو، شریکِ حیات غصیلی طبیعت کا مالک ہو یا آفس میں باس کسی حد تک ناقابل برداشت ہو تو ان تمام کے رویوں کے جواب میں انسان کا ردعمل کس طرح کا ہونا چاہئے‘ یہ انسان کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے۔ کسی بھی طرح کے حالات میں انسان کا رویہ بتاتا ہے کہ وہ کتنا ذمہ دار ہے۔
بحیثیت انسان ہم سب خود ہی اپنی زندگیوں یعنی اپنے حالات کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ انسانی رویے کے نتائج کا اثر اردگرد کے ماحول اور دوسرے افراد پر بھی ہوتا ہے۔ اگر کسی کے رویے کے نتیجے میں کوئی غلطی ہو گئی ہے تو اس کو چاہیے کہ اسے قبول کرے اور اس غلطی کو سدھارنے کی کوشش کرے۔ ذمہ داری لینے سے انسان کو چوائس مل جاتی ہے کہ اس نے اپنے لیے کس بات کا انتخاب کرنا ہے۔ انسان اپنی زندگی، اپنے خیالات، احساسات، اپنے الفاظ اور اپنا کردار خود تخلیق کرتا ہے۔ جو خیالات اس کے ذہن میں آتے ہیں، جو الفاظ وہ بولتا ہے، جس ردعمل کا اظہار کر تا ہے‘ ان سب کا ذمہ دار وہ خود ہے۔ انسان جب اپنے رویے کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا تو سب سے زیادہ نقصان اس کی اپنی ذات کو پہنچتا ہے، اس کا اثر اس کے دل و دماغ پر بھی ہوتا ہے کیونکہ اس کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ اس طرزِ عمل سے صرف اپنے آپ کو تسلی دے رہا ہے۔ وہ پریشان رہتا ہے اور بعض اوقات ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ خود ترسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ غصہ، خوف، ناراضی اور شک جیسے منفی احساسات اس میں جنم لینے لگتے ہیں۔ وہ احساسِ کمتری کا شکار ہو کر خود اعتمادی کی کمی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ جب انسان دوسروں کو یا حالات کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے تو وہ دوسروں کی نظر میں اپنی عزت و وقعت کھو دیتا ہے۔ ذمہ دا ری قبول نہ کرنے کی وجہ سے فرد کی ترقی کے مواقع ختم ہو جاتے ہیں۔ جب انسان اپنے رویے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے تو اس کے بہت سے فوائد ہیں، اس کی عزتِ نفس اور خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ ذہنی اور جذباتی طور پر مضبوط ہوتا ہے۔ انسان جب ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ اس کو اپنے رویوں پر کنڑول حاصل ہے، ایسے فرد کو ترقی کے بے شمار مواقع ملتے ہیں۔ جو فرد اپنے بارے میں مثبت انداز میں سوچتا ہے، وہ اپنے مقصد کو حاصل کر سکتا ہے۔ ذمہ دار فرد کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ذمہ داری قبول کرنے سے انسان کو اپنی شخصیت کے کمزور اور مضبوط‘ ہر دو طرح کے پہلوئوں کی پہچان ہونے لگتی ہے، لیکن جو افراد جو اپنے رویوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے عادی نہیں ہیں، اگر وہ اپنی سوچ میں تبدیلی لے آئیں تو ان کی زندگی مثبت انداز میں آگے بڑھنے لگے گی۔ ایسے افراد کو چاہئے کہ سب سے پہلے وہ دوسروں کو الزام دینا چھوڑ دیں، اپنے رویے کے نتائج کی ذمہ داری قبول کریں۔ کسی بھی طرح کے حالات میں سو چ کو مثبت رکھیں۔ ماضی میں کھوئے رہنے کے بجائے حال پر فوکس کریں اور مستقبل میں پرانی غلطیاں نہ دہرانے کا عزم کریں۔
یہ انسان کی فطرت ہے کہ دوسروں کی معمولی غلطی یا بعض اوقات غلط فہمی کو بھی اس قدر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتاہے کہ کسی عام واقعے کے نتائج بھی بہت بھیانک نکلتے ہیں۔ کئی ایسے واقعات ہمارے سامنے رونما ہوئے کہ جن میں معمولی غلط فہمی کی بنیاد پر کئی قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو گئیں یا کئی خاندان تباہ ہو گئے۔ بعد ازاں حقائق سے پردہ اٹھا تو معلوم ہوا کہ کئی بڑے بڑے سانحات کے پیچھے معمولی سی غلط فہمی یا کمزور رویہ تھا۔ اگر کسی پر بھی سنگین الزام لگانے سے پہلے انسان اپنے رویے میں کچھ لچک پیدا کر لے اور محض شک کی بنیاد پر کوئی حتمی نتیجہ اخذ کرنے سے پہلے صبر سے کام لے اور تحقیقات کر لے تو بہت سارے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل وہاڑی میں ایک خاتون نے اپنے شوہر پر کسی غیر محرم عورت سے تعلقات کا الزام عائد کیا، مرد نے یقین دہانی کرائی کہ ایسی کوئی بات نہیں اور اس کے کسی سے کوئی تعلقات نہیں ہیں لیکن اس کی بیوی اپنے الزام پر ڈٹی رہی اور اپنے بچوں کو بھی بھڑکایا، جس کے نتیجے میں ایک دن اس کے بڑے بیٹے نے کلہاڑی کے وار سے اپنے ہی باپ کو قتل کر دیا۔ وہ شخص دنیا سے چلا گیا، اس کا بیٹا گرفتار ہو کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید ہو گیا۔ مگر جب تفتیش کی گئی تو اس خاتون نے اعتراف کر لیا کہ اس نے صرف ضد اور انا کی خاطر اپنے شوہر پر جھوٹا الزام لگایا تھا۔ اب یہ خاتون بھی قتل کی سازش کے الزام میں دھر لی گئی۔ اگر ہم اس واقعے پر غور کریں اور اس کا تجزیہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ ایک خاتون کی ضد اور انا نے پورے خاندان کو برباد کر دیا۔ نہ صرف ایک انسان کی جان چلی گئی بلکہ اس کے بیٹے کو بھی سالوں کے لیے جیل کی کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا اور وہ خاتون خود بھی محفوظ نہ رہی اور کچھ عرصے بعد وہ بھی جیل پہنچ گئی۔ دوسرا پہلو دیکھیں تو ایک معمولی سی غلط فہمی پر ایک ناخلف بیٹے نے اپنے باپ کو قتل کرکے اپنی آخرت بھی خراب کر لی اور اس دنیا میں بھی اپنی زندگی برباد کر بیٹھا ہے۔ غرض انا اور جلد بازی کے منفی رویوں نے پورے خاندان کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔
عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ ہم بغیر تحقیق کے دوسروں کے بارے میں فوراً ہی کوئی رائے قائم کر لیتے ہیں اور اکثر یہی ہوتا ہے کہ جو ہمارے سامنے موجود ہو یا جس سے ہمارا واسطہ پڑے‘ اسے ہم منفی جبکہ دور کے ڈھول کو سہانا سمجھ لیتے ہیں۔ سدرشن فاکر کے بقول:
سامنے ہے جو اسے لوگ برا کہتے ہیں
اگر انسان کوئی بھی حتمی نتیجہ اخذ کرنے سے پہلے اپنے رویے پر غور کر لے تو اسے یقینا احساس ہو جائے گا کہ اس کا رویہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی سخت ہے اور اس میں لچک دکھانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ہمیں دوسروں کے بارے میں کوئی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے موجود شواہد اور دلائل کی صحت اور سچائی کی تصدیق ضرور کرنی چاہئے‘ اس طرح ہم بہت سارے مسائل سے بچ سکتے ہیں اور اپنی زندگی کو خوشگوار بنا سکتے ہیں۔ ہم بہت سارے ایسے لوگوں کو بھی جانتے ہیں کہ جو اپنی جوانی میں بڑے جذباتی اور انا پرست ہوتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے رویے میں تبدیلی پیدا کرتے ہیں اور پھر جب ان کے بچے جوان ہونے لگتے ہیں تو ان کا رویہ مزید ذمہ دارانہ ہوتا جاتا ہے۔ درحقیقت یہی احساس ذمہ داری ہوتا ہے جس کے باعث انسان کوئی بھی نتیجہ اخذ کرنے یا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتا ہے۔ جب بھی انسان کوئی کام کرنے سے پہلے سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتا ہے تو اس میں غلطی کا احتمال کم ہو جاتا ہے، لیکن بدقسمتی سے یہاں ہر کوئی خود کو عقلِ کُل اور سب سے بہتر سمجھتا ہے جبکہ دوسروں کی رائے کو اہمیت کم ہی دی جاتی ہے جو تمام مسائل کی جڑ ہے۔ بقول شاعر:
اسی لیے تو یہاں اب بھی اجنبی ہوں میں
تمام لوگ فرشتے ہیں آدمی ہوں میں