عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے اور اس حوالے سے ہونے والے اقدامات کے باوجود چھتیس گھنٹے قبل تک ملک میں الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے غیر یقینی کی صورتحال برقرار تھی۔ عوام کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کا بھی خیال تھاکہ شاید 8 فروری کو ملک بھر میں جنرل الیکشن کا انعقاد نہ ہو سکے اور ایک بار پھر نگران سیٹ اَپ کو توسیع مل جائے۔ غیر یقینی کی اس صورتِ حال کی ایک بنیادی وجہ ملک بھر میں دہشت گردی کی حالیہ لہر تھی جبکہ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے ریٹرننگ افسران کی تعیناتی روکنے کے بعد افواہوں کو مزید تقویت ملی جس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ڈی آر اوز اور آر اوز کا تربیتی عمل بند کرکے بظاہر انتخابی عمل روک دیا تھا؛ تاہم جمعہ کے روز عدالتِ عظمیٰ نے لاہور ہائیکورت کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر اور الیکشن شیڈول جاری کرنے کے احکامات جاری کر کے ملک میں اس حوالے سے پائی جانے والی بے یقینی کی صورتحال کا خاتمہ کر دیا اور اب ان شاء اللہ الیکشن اپنے مقررہ وقت ہی پر ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے عام انتخابات کیس کا 6 صفحات کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا الیکشن کی تاریخ سے متعلق حکم واضح تھا کہ کوئی بھی جمہوری عمل میں خلل نہیں ڈالے گا۔ تحریری حکم نامے میں عدالت نے کہا ہے کہ پٹیشنز بظاہر جمہوری عمل ڈی ریل کرنے کی کوشش کے مرتکب ہوئے، ہائیکورٹ نے 2753 ڈی آر اوز، آر اوز اور اے آر اوز کا کام روک دیا، عدالتِ عالیہ نے بیک جنبشِ قلم انتخابی عمل کو ڈی ریل کر دیا۔ ڈی آر اوز اور آر اوز کو خاص طور پر انتخابات کے لیے تعینات نہیں کیا گیا، تعینات افسران پہلے سے بطور انتظامی افسر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے ہائیکورٹ کو درخواست پر مزید کارروائی سے بھی روک دیا۔
سپریم کورٹ میں دورانِ سماعت جسٹس سردار طارق مسعود نے الیکشن کمیشن کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ نے ٹریننگ بلا وجہ روکی، کیا آپ بھی چاہتے ہیں کہ الیکشن نہ ہو؟ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد آپ نے ٹریننگ ختم کرنے کا نوٹیفکیشن کیوں جاری کیا؟ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن سے انتخابات کا شیڈول مانگتے ہوئے استفسار کیا کہ شیڈول ہے کہاں‘ ہمیں شیڈول دکھائیں۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ اگر آر اوز انتظامیہ سے لینے کا قانون کالعدم ہو جائے تو کبھی الیکشن ہو ہی نہیں سکے گا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کو کوئی درخواست دی گئی ہے؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کو کوئی درخواست نہیں دی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر پٹیشنر کو کوئی مسئلہ تھا تو سپریم کورٹ آتے‘ ہائیکورٹ نے پورے ملک کے ڈی آر اوز کیسے معطل کر دیے؟ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس کہتے ہیں جوڈیشل افسران نہیں دے سکتے، کیا جج نے اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف رٹ جاری کی؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک درخواست پر پورے ملک میں انتخابات روک دیں؟ یہ درخواست سپریم کورٹ کے حکم کی توہین ہے۔ انہوں نے کہا کہ درخواست آئی‘ لگ بھی گئی‘ حکم امتناع دینے والا جج ہی لارجر بینچ کا سربراہ بن گیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح کیا تھا کہ کوئی بھی جمہوری عمل میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔ الیکشن کرانے سے متعلق ہمارا فیصلہ بہت واضح ہے۔ تمام ڈی آر اوز متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنرز ہیں، اس سے تو بادی النظر میں انتخابات ملتوی کرانا ہی مقصد نظر آتا ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ نگران حکومت کے آتے ہی تمام افسران تبدیل کیے گئے تھے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے جوڈیشل آفیسر فراہم کرنے کے خط کا جواب نہیں دیا۔ لاہور ہائیکورٹ کو دو خطوط لکھے گئے تو انہوں نے جوڈیشل آفیسر فراہم کرنے سے معذرت کی، الیکشن کمیشن کی اولین ترجیح عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینا ہی تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے رات گئے عام انتخابات کا شیڈول بھی جاری کر دیا جس کے مطابق ملک بھر میں عام انتخابات 8 فروری کو ہوں گے، ریٹرننگ افسران 19 دسمبر کو پبلک نوٹس جاری کریں گے۔ انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی 20 تا 22 دسمبر تک جمع کرائے جا سکیں گے، امیدواروں کی ابتدائی فہرستیں 23 دسمبر کو جاری ہوں گی، امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال 24 تا 30 دسمبر ہو گی، کاغذاتِ نامزدگی کے خلاف اعتراضات 3 جنوری تک دائر کیے جا سکیں گے، امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کے خلاف اپیلیں 10 جنوری تک سنی جائیں گی۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کرتے ہوئے چاروں صوبائی الیکشن کمشنرز کے نام مراسلہ بھی جاری کر دیا جس میں کہا گیا ہے کہ ڈی آر اوز اور ریٹرننگ افسروں کی ٹریننگ 17 تا 18 دسمبر ہو گی۔ الیکشن کمیشن کے مراسلے کے مطابق ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کی ایک روزہ ٹریننگ 19 دسمبر کو بھی ہو گی۔
عدالت عظمیٰ کا فیصلہ یقینا پاکستانی عوام کی امنگوں کے عین مطابق ہے کیونکہ ملک کا عام شہری یہی چاہتا ہے کہ انتخابات شیڈول کے مطابق ہوں اور ایک منتخب حکومت ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کے لیے طویل المدت ٹھوس اقدامات کرے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایک طرف غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا ہے تو دوسری طرف یہ بات سامنے آئی کہ نگران سیٹ اپ میں اقتدار کے مزے لوٹنے والے کئی سیاستدان خود بھی الیکشن لڑنا چاہتے ہیں جس کے لیے انہوں نے اپنی وزارتوں سے استعفے دے دیے ہیں۔ نگران وفاقی وزیر داخلہ سینیٹر سرفراز بگٹی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ذرائع کے مطابق نگران وزیر داخلہ نے اپنا استعفیٰ پہلے ہی نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو پیش کر دیا تھا جبکہ نگران وزیراعظم نے سرفراز بگٹی کے استعفے کی منظوری اب دی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی سرفراز بگٹی اپنا استعفیٰ پہلے دے چکے تھے جو نگران وزیراعظم نے مصروفیات یا دیگر وجوہات کی بنا پر گزشتہ روز منظور کیا یا ان کا استعفیٰ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد الیکشن شیڈول جاری ہونے پر اس لیے منظور کرلیاگیا تاکہ وہ آئندہ عام انتخابات میں حصہ لے سکیں۔ علاوہ ازیں بلوچستان کے نگران صوبائی وزیر کھیل و ثقافت نوابزادہ جمال رئیسانی اور نگران مشیرِ معدنیات عمیر محمد حسنی نے بھی اپنے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ نگران وزیر اعلی بلوچستان علی مردان ڈومکی نے ان کے استعفے قبول کر لیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ دونوں افراد بھی نگران سیٹ اَپ میں اقتدار انجوائے کرنے کے بعد اب استعفے دے کر الیکشن لڑنے کے اہل ہو گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سرفراز بگٹی مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر جبکہ نوابزادہ جمال رئیسانی اور عمیر محمد حسنی پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر آئندہ عام انتخابات میں حصہ لیں گے۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ نگران حکومت میں غیر جانبدار لوگ شامل ہوتے ہیں‘ جنہوں نے انتخابات میں حصہ نہیں لینا ہوتا اور ذاتی مفاد نہ ہونے کی وجہ سے وہ غیر جانبدار اور غیر سیاسی رہتے ہیں۔ کیا یہ طریقہ کار درست ہے کہ کوئی بھی سیاسی رہنما پہلے خود کو غیر جانبدار ظاہر کرکے نگران سیٹ اَپ میں اقتدار انجوائے کرے اور پھر اپنے حلقے کے تمام معاملات ''سیٹ‘‘ کرنے کے بعد الیکشن شیڈول جاری ہونے سے عین پہلے مستعفی ہوکر خود ہی انتخابی امیدوار بن جائے؟ قانونی طور پر یہ عمل اگر درست ہو تب بھی سیاسی اخلاقیات میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے مگر سیاست میں اخلاقیات کی پروا ہی کسے ہے؟ فی الحال اچھی بات یہی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بے یقینی کی کیفیت ختم ہو گئی ہے اور الیکشن شیڈول بھی جاری ہو چکا ہے۔ امید ہے کہ ملک میں انتخابی عمل خوش اسلوبی سے مکمل ہو گا اور عوام اپنی پسند کے نمائندے منتخب کر سکیں گے۔