غزہ میں اسرائیل کی مسلسل وحشیانہ بمباری، جنگی جرائم اور امریکہ سمیت بعض مغربی طاقتوں کی جانب سے اس عالمی دہشت گردی کی کھلی حمایت کے بعد اقوام متحدہ کا وجود بالکل بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ درپیش حالات کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ سمیت بااثر عالمی قوتوں نے اقوام متحدہ کو اپنے مفادات کے تحفظ اور غریب ممالک کو نشانہ بنانے کے جواز کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ بااثر طاقتیں جب چاہتی ہیں اقوام متحدہ کے امن مشن کے نام پر فوج اکٹھی کر کے کمزور (خصوصاً مسلم) ممالک پر چڑھائی کر دیتی ہیں لیکن دنیا بھر میں جہاں بھی انسانوں بالخصوص مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں‘ وہاں اقوام متحدہ کا کردار پُراسرار ہو جاتا ہے۔ مسئلہ کشمیر اس کی واضح مثال ہے جس کے حوالے سے اقوام متحدہ آج تک اپنی قراردادوں پر عمل درآمد نہیں کرا سکا ۔ پہلے تو قابض بھارتی افواج نے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی شروع کر رکھی تھی لیکن اب تو وہاں انتہا پسند ہندو سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی الگ ریاستی حیثیت ہی کو غیر قانونی طور پر ختم کر کے اسے بھارت کا حصہ قرار دے دیا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر کے شہری کئی سالوں سے کرفیو میں زندگی بسر کر نے پر مجبور ہیں لیکن اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے کی کوشش تو دور کی بات‘ بھارت کے ناجائز طریقے سے کشمیر پر قبضے کو غیر قانونی تک قرار نہیں دیا۔
ادھر غزہ میں اسرائیل اور اس کی حامی عالمی طاقتوں کی جانب سے ہونے والی عالمی دہشت گردی پر اقوام متحدہ کا کردار انتہائی مایوس کن اور افسوسناک ہے کیونکہ عالمی ادارے کا کردار محض مذمتی بیانات تک محدود ہے اور جنگ بندی تو دور کی بات‘ وہاں ادویات اور خوراک کی ترسیل بھی ممکن نہیں بنائی جا سکی۔ غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے بعد اقوام متحدہ‘ بطور عالمی ثالث اور بطور عالمی ادارۂ برائے فروغِ امن‘ اپنا اعتماد اور وقار کھو چکا ہے کیونکہ اگر ایسے عالمی ادارے نے بھی صرف مذمت یا اپیل ہی کرنی ہے اور اگر طاقتور ممالک کے خلاف کارروائی یا کوئی ٹھوس فیصلہ کرنے کی جرأت نہیں کرنی تو پھر اس کے وجود کی ضرورت اور جواز ہی کیا ہے؟
ایک طرف امریکہ اقوام متحدہ میں اسرائیلی جنگی جرائم کے خلاف قراردادوں کو ویٹو کرتا رہا تو دوسری جانب آج اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی درخواست پر بحیرۂ احمر میں یمنی حوثیوں کے اسرائیل کے بحری جہازوں پر حملوں کے خلاف مذمتی قرارداد پر ووٹنگ متوقع ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق: امریکی قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ بحیرۂ احمر میں حوثیوں کے حملے عالمی تجارت میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ حوثیوں کے حملے علاقائی امن و سلامتی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ سلامتی کونسل میں پیش کردہ امریکی قرارداد میں حوثیوں کے زیرِ قبضہ اسرائیلی جہاز کی فوری بازیابی کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ بحیرہ احمر سمیت مختلف بحری راستوں پر اسرائیلی اور ان کے اتحادیوں کے جہازوں پر حوثیوں کے حملے بڑھ گئے ہیں۔ تازہ ترین واقعے میں امریکہ و برطانیہ کی فورسز نے بحیرہ احمر میں فائر کیے گئے 21 ڈرونز کو مار گرایا ہے۔ حوثیوں کے ڈرونز اور میزائل حملے میں کسی جہاز کو نقصان نہیں پہنچا۔ اگر آج اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں حوثیوں کے خلاف امریکی قرارداد منطور ہو جاتی ہے تو پھر اقوام متحدہ کا دُہرا معیار کھل کر سامنے آ جائے گا جو اس عالمی ادارے کو مزید متنازع بنا دے گا اور امریکہ کی منافقانہ پالیسیاں بھی بے نقاب ہو جائیں گی۔
فلسطینی مسلمانوں کو نسل کشی سے بچانے کے لیے امید کی ایک نئی کرن جنوبی افریقہ کے مقدمے کی صورت میں پیدا ہوئی ہے اور توقع ہے کہ عالمی عدالتِ انصاف اسرائیل کے جنگی جرائم کے خلاف مقدمے کی سماعت آج سے شروع کر دے گی۔ جنوبی افریقہ نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی پر اسرائیل کے خلاف انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے) سے رجوع کر رکھا ہے۔ اسرائیل کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف میں غزہ کے مسلمانوں کی نسل کشی کے کیس کی حمایت کرنے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ مالدیپ اور نمیبیا نے بھی آئی سی جے میں اسرائیل کے خلاف مقدمے کی حمایت کی ہے۔ عالمی عدالتِ انصاف میں اسرائیل کے خلاف مقدمے کی سماعت آج اور کل یعنی 11 اور 12جنوری کو شیڈول ہے۔ ادھر اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے قائم مقام مستقل مندوب عثمان جدون نے اس کیس سے متعلق جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کے عالمی عدالتِ انصاف میں جانے کا خیر مقدم کرتے ہیں‘ عالمی عدالتِ انصاف کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے متعلق قانونی موقف کا انتظار ہے۔
ایک خبر کے مطابق عالمی عدالت انصاف اسرائیل پر جنگی جرائم کے مقدمے کا باقاعدہ آغاز آج کر دے گی۔ اس حوالے سے دنیا بھر کے سوشل میڈیا صارفین کا مطالبہ ہے کہ اسرائیلی جنگی جرائم کے مقدمے کی سماعت کے آغاز کے ساتھ ہی سائبر انتفاضہ کی تحریک چلائی جائے۔ تمام انسانیت اور سبھی انصاف پسند افراد اس تحریک کا حصہ بنیں اور دو گھنٹے تک اسرائیلی مظالم کی تصاویر اور وِڈیوز سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر #EndIsraelGenocide کے ہیش ٹیگ کے ساتھ شیئر کریں۔ واضح رہے کہ جنوبی افریقہ نے گزشتہ سال کے آخر میں اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت میں شکایت درج کرائی تھی۔ جنوبی افریقہ کے صدر راما فوسا نے کہا تھا کہ شکایت اسرائیلی جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے درج کرائی جا رہی ہے‘ اسرائیل غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم اور نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے جبکہ ہسپتالوں اور انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا گیا ہے‘ ہزاروں فلسطینی اپنی جان گنوا چکے ہیں، یقین ہے کہ عالمی فوجداری عدالت اسرائیلی جنگی جرائم کی تحقیقات کرے گی۔ جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں‘ عین اس وقت اسرائیلی فوج نے رفح میں رہائشی عمارت پر حملہ کر کے مزید 15 فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے۔ ادھر اسرائیلی فوج نے غزہ میں اپنے ایک اور فوجی کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق غزہ میں زمینی آپریشن میں ہلاک ہونے والے اسرائیلی فوجیوں کی تعداد 186 ہو گئی ہے۔ گزشتہ روز غزہ میں نو اسرائیلی فوجی مارے گئے تھے۔ حزب اللہ نے بھی اسرائیل کے شمالی شہر صفد میں اسرائیلی ملٹری کمانڈ سنٹر کو متعدد ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا۔ اسرائیلی میڈیا نے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اقوام متحدہ کی طرح او آئی سی اور بااثرعرب ممالک کا کردار بھی غزہ کے مسئلے پر غیر مؤثر رہا اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات رکھنے والے مسلم ممالک نے اپنے سفارتی تعلقات تک منقطع نہیں کیے۔ برطانیہ میں سعودی سفیر نے اس حوالے سے کہا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے مشروط ہیں۔ لندن میں برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب 7 اکتوبر کے بعد بھی اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے پر یقین رکھتا ہے‘ مگر فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر تعلقات ناممکن ہیں۔
بہرکیف‘ اب دنیا کی نظریں عالمی عدالت انصاف پر ہیں‘ دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کا ایک بڑا امتحان ہے کہ وہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ہسپتالوں، سکولوں، رہائشی آبادیوں، عالمی امدادی اداروں، صحافیوں اور پناہ گزین کیمپوں پر وحشیانہ بمباری رکوانے میں کامیاب ہوتی ہے اور اسرائیل کو جنگی جرائم پر مجرم قرار دیتی ہے یا پھر اقوام متحدہ کی طرح محض نشستند، گفتند اور برخاستند والا کردار ادا کرتی ہے۔ عالمی عدالت انصاف کو اپنے تمام تر اختیارات استعمال کرتے ہوئے اسرائیل اور اس کو عسکری امداد مہیا کرنے والے ممالک پر سخت پابندیاں عائد کرنی چاہئیں تاکہ آئندہ کسی طاقتور ملک کو کسی کمزور ملک پر طاقت کے ذریعے ناجائز قبضہ کرنے اور اپنے مخالفین کی نسل کشی کرنے کی جرأت نہ ہو سکے۔