سرحدی خطرات اور سیاحت

وطن عزیز پاکستان ایک امن پسند اور پُرامن ملک ہے۔ ہماری قوم اپنے مہمانوں کی عزت اور حفاظت کرنا نہ صرف جانتی ہے بلکہ اسے اپنا فرض سمجھتی ہے۔ پاکستان میں آج تک بھارت کے شہریوں کو بھی کبھی کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا حالانکہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک‘ پاکستان میں ہونے والی ہر قسم کی دہشت گردی و تخریب کاری کی وارداتوں کے پیچھے کسی نہ کسی طور بھارت کا ہاتھ ملوث رہا ہے، لیکن اس کے باوجود بھارتی سیاحوں اور زائرین کو پاکستان میں بہترین سلوک دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہر سال پڑوسی ملک سے ہزاروں یاتری پاکستان آتے ہیں جن میں ہندو اور سکھ‘ دونوں شامل ہیں۔ یہ افراد پاکستان میں موجود اپنے مذہبی مقامات کی زیارت کرتے ہیں‘ انہیں یہاں مکمل مذہبی آزادی میسر آتی ہے۔ اسی طرح بھارت سے آنے والی مختلف کھیلوں کی ٹیموں کو بھی یہاں بھرپور مہمان نوازی دیکھنے کو ملتی ہے۔ دوسری طرف بھارت پاکستان کے شہریوں کے لیے بالکل بھی محفوظ نہیں۔ انڈین فورسز پاکستانیوں کو ہمیشہ ہراساں کرتی رہتی ہیں جبکہ روایتی حریف کی کرکٹ ٹیم بھی طویل عرصے سے سکیورٹی کا بے بنیاد بہانہ بنا کر یہاں کرکٹ میچز کھیلنے سے انکاری ہے۔
حال ہی میں برطانوی فارن آفس نے پاکستان کے لیے ٹریول ایڈوائزری پر نظرثانی کرتے ہوئے اپنے شہریوں کو پاکستان کے مخصوص علاقوں کا سفر نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ایڈوائزری میں کہا گیا کہ مخصوص علاقوں میں جانے والوں کی انشورنس قابلِ قبول نہیں رہے گی۔ برطانوی باشندوں کو پاک افغان سرحد سے 10 میل دور رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں کے پی کے چند اضلاع میں نہ جانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ برطانوی ایڈوائزری میں آزاد کشمیر کی لائن آف کنٹرول سے بھی 10 میل دور رہنے کی ہدایت کی گئی ہے جبکہ شمالی سندھ بشمول نوابشاہ بھی اس ایڈوائزی میں شامل ہے۔ اگر حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو برطانیہ خود بھی غیر ملکیوں کے لیے اتنا محفوظ نہیں ہے۔ اس کی تازہ مثال ایک پاکستانی بزنس مین کا لندن میں قتل ہے۔ میٹرو پولیٹن پولیس کو پاکستانی بزنس مین کی لاش 9 جنوری کو پارکنگ میں موجود گاڑی سے ملی۔ پولیس کے مطابق قتل کے شبہ میں ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے۔ مقتول کا تعلق پاکستان کے شہر سرگودھا سے تھا اور وہ لندن میں موبائل کے کاروبار سے منسلک تھے۔ چیف سپرنٹنڈنٹ لندن پولیس سائمن کرک کا کہنا ہے کہ کاروباری سنٹر میں قتل کی واردات پر شہریوں کے تحفظات سے آگاہ ہیں‘ ہم نے ایک شخص کو گرفتار کیا ہے‘ عوام کیلئے کوئی خطرہ نہیں۔ پولیس نے عوام سے تفتیش میں تعاون کی اپیل بھی کی ہے۔ اس کے علاوہ برطانیہ بالخصوص لندن میں تیزاب گردی کے واقعات بھی بڑھتے جا رہے ہیں جن میں سب سے زیادہ نشانہ غیر ملکیوں کو بنایا جاتا ہے۔ برطانیہ کی مڈل سیکس یونیورسٹی میں گینگز کے ماہر ڈاکٹر سائمن ہارڈنگ کے مطابق گینگ وارز میں تیزاب پسندیدہ ہتھیار بنتا جا رہا ہے‘ تیزاب پھینکنے سے غالب ہونے، طاقت اور کنٹرول میں ہونے کا تاثر دینا اور مخالفین پر اپنا خوف بٹھانا مقصود ہوتا ہے۔ ملزمان کو معلوم ہوتا ہے کہ کسی کو زخمی کرنے کے لیے تیزاب چاقو سے زیادہ مؤثر ہے کیونکہ اگر چاقو کے ساتھ وہ پکڑے جائیں تو سزا زیادہ ہے جبکہ تیزاب پھینکنے کو ثابت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس طرح کے حملے میں عموماً کوئی ڈی این اے بھی نہیں ملتا۔ حالیہ عرصے میں کئی پاکستانیوں کو برطانیہ میں تیزاب گردی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے ٹریول ایڈوائزری جاری کرنا کسی بھی ملک کا حق ہے لیکن زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو پاکستان تمام غیر ملکیوں کے لیے ایک محفوظ ملک ہے جہاں نہ صرف غیرملکی سیاح آسانی کے ساتھ ملک بھر کا سفر کر سکتے ہیں بلکہ یہاں سیر و تفریح، رہائش، خوراک، خریداری اور کھیلوں کے وسیع مواقع بھی موجود ہیں۔ برطانوی ایڈوائزری کا بغور جائزہ لیا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ برطانیہ نے اپنے شہریوں کو مشرق اور مغرب یعنی افغانستان اور بھارت کی سرحدوں سے ملحقہ علاقوں میں جانے سے روکا ہے۔ مشرق میں بھارت کی دشمنی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن بدقسمتی سے مغربی ہمسایہ ملک افغانستان بھی پاک سرزمین پر بدامنی پھیلانے میں پیش پیش ہے۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو قیام پاکستان کے وقت برادر مسلم ملک افغانستان کی اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت ایک ایسا المیہ تھا جو افغان حکمرانوں کے عزائم کو واضح کرنے کو کافی تھا۔ دونوں ممالک کے مابین 2430 کلومیٹر طویل سرحد ہے جو اس قدر پیچیدہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے تمام تر کوششوں کے باوجود افغانستان سے آزادانہ آمد و رفت کو روکنا مشکل بنا ہوا ہے۔ پاکستان کو افغان سرحد پر خاردار باڑ کی تنصیب ہرگز نہ کرنا پڑتی اگر یہ سرحد پاکستان میں دہشت گردی کا طوفان برپا کرنے کے لیے بھارتی تربیت یافتہ دہشت گردوں کی آسان آمد و رفت کا ذریعہ نہ بنی ہوتی۔ یہ دہشت گردی گزشتہ دو دہائیوں میں 80 ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کی جان لے چکی ہے جن میں پاک فوج کے دس ہزار سے زائد افسران و جوان بھی شامل ہیں۔ پاک افغان سرحد پر بدخشاں، نورستان، کنٹر، ننگرہار، پکتیا، خوست، پکتیکا، زابل، قندھار، ہلمند اور نمروز اس انداز سے پاکستان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں کہ ان صوبوں میں بسنے والے بہت سے قبائل سرحد کے اس طرف پاکستان میں بھی آباد ہیں، جو خاردار باڑ کی تنصیب سے قبل بلا خوف و خطر ایک دوسروں کے علاقوں میں آمد و رفت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ افغان حکمرانوں کی مخالفت کی طرح پاکستان سے گندم و دیگر زرعی اجناس کی افغانستان سمگلنگ کا مسئلہ بھی تقسیمِ ہند کے وقت پاکستان کو ترکے میں ملا۔ اسی طرح غیر ملکی اشیا کی بغیر کسٹم ڈیوٹی و ٹیکس ادائیگی براستہ افغانستان پاکستان میں سمگلنگ کا سلسلہ بھی خاصا پرانا ہے۔ اس سمگلنگ سے پاکستانی معیشت کو پہنچنے والا نقصان کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ بہرحال یہ سب تاریخی حقائق ہیں جوتلخ بھی ہیں اور پاکستانی عوام کیلئے تکلیف دہ بھی؛ تاہم 1979ء میں سوویت یونین کی افغانستان پر فوج کشی نے اس وقت بہت کچھ بدل کے رکھ دیا جب افغانستان اور بھارت کے خفیہ اداروں نے مل کر پاکستان کے خلاف جدید طرز کی گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔ روسی افواج کے ناجائز قبضے کے خلاف افغانستان کے اندر سے پھوٹ پڑنے و الی مزاحمت کی پاکستان کی طرف سے حمایت فطری بات تھی۔ سرحد کے دونوں طرف آباد مشرکہ قبائل کے ہوتے ہوئے پاکستان سوویت یونین کی افغانستان میں جارحیت سے چاہنے کے باوجود بھی الگ تھلگ نہیں رہ سکتا تھا کیونکہ رشتے داریوں کے علاوہ اسلامی بھائی چارہ اور ہزار سال کی مشترکہ تہذیب اور روایت کی بدولت پاکستان آنے والے افغان مہاجرین کو روکنا پاکستان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ ان افغان مہاجرین میں وہ عناصر بھی شامل تھے ماضی میں جو پاکستان مخالف افغان حکومتوں کا حصہ رہے اورا فغان حکومتوں کے ماسکو سے دوستانہ مراسم کے دور میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور سرحد (خیبر پختونخوا) میں بدامنی کا سبب بنتے رہے۔
آج بھی پاکستان کے مشرق اور مغرب میں موجود‘ بھارت اور افغانستان پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ اسی وجہ سے حکومت وطن عزیز میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں (جن میں 90 فیصد سے زائد افغان ہیں) کو اپنے ملک واپس بھجوانے پر مجبور ہوئی ہے۔ اگر بیرونی عناصر دراندازی نہ کریں تو پاکستان مکمل طور پر پُرامن اور محفوظ اور ایک مہمان نواز ملک ہے اور یہ بات برطانوی ٹریول ایڈوائزری میں بھی واضح ہے کہ صرف سرحدی علاقوں کو برطانیہ نے غیر محفوظ قرار دیا ہے‘ جبکہ اس کے علاوہ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب سمیت پاکستان بھر میں غیر ملکی سیاح خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ آج تک کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جس میں کسی سیاح کو سلامتی کا کوئی مسئلہ پیش آیا ہو۔ وزارتِ سیاحت اور متعلقہ ادارے اگر محفوظ اور پُرامن پاکستان کا صحیح تصور دنیا کے سامنے اجاگر کریں تو خوبصورت قدرتی نظاروں سے مزین ہمارے ملک میں سیاحوں کے لیے بڑی کشش موجود ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں