آئی ایم ایف کا ایل این جی کی درآمد پر سرکاری ملکیتی اداروں کی اجارہ داری ختم کرنے کا مطالبہ
اسلام آباد: (ذیشان یوسفزئی) عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے ایل این جی کی درآمد پر سرکاری ملکیتی اداروں کی اجارہ داری ختم کرنے کا مطالبہ کردیا۔
آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ ایل این جی کی درآمد پر سرکاری ملکیتی اداروں کی اجارہ داری ختم کی جائے، ایل این جی کی خریداری نجی شعبے کے ذریعے کی جائےتاکہ مقابلے کی فضا قائم ہو۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف حکام نے دورے سے قبل ایل این جی سیکٹر کے متعلقہ حکام سے حکومتی خریداری کے کردار پر رپورٹ طلب کی تھی، پاور ڈویژن حکام نے ایل این جی کی درآمد پر ورکنگ مکمل کرلی ہے آئی ایم ایف حکام کو اس حوالے سے بریف کیا جائے گا۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومتی سطح پر لانگ ٹرم ایگریمنٹ کے تحت پی ایس او اور پی ایل ایل ایل این جی درآمد کرتا ہے، ایگریمنٹ ختم ہونے کے بعد آئی ایم ایف کے اس مطالبے پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا ۔
پاور ڈویژن ذرائع کا مزید بتانا ہے کہ اس وقت پاکستان حکومتی سطح پر ماہانہ دس کارگوز ایل این جی معاہدوں کے تحت منگواتا ہے، 9 کارگوز پی ایس او اور ایک پی ایل ایل درآمد کرتا ہے۔
پاکستان ماہانہ ایک ارب کیوبک فٹ تک ایل این جی درآمد کرتا ہے، پی ایس او کے کارگوز سے ایل این جی پاور سیکٹر اور گیس کمپنیوں کو فراہم کی جاتی ہے، گیس کمپنیاں یہی ایل این جی پائپ کے ذریعے صارفین کو بیچتی ہیں جبکہ پی ایل ایل کے کارگو سے درآمدی گیس کے الیکٹرک کو مہیا کی جاتی ہے۔
ایل این جی درآمد کرنے کے لیے حکومتی ادارے قرض رقم لیتے ہیں جس پر سود ادا کرنا پڑتا ہے، ایس این جی پی ایل نے مالی سال 2025 کے لیے 150 ارب روپے ایل این جی کے مد میں مانگے ہیں جس پر 32 ارب روپے کا سود بھی آئے گا اس لیے آئی ایم ایف کو اس بات پر شدید اعتراض ہے کہ حکومت کو اس کاروبار سے نکالنا ہوگا۔
ذرائع پٹرولیم ڈویژن نے بتایا ہے کہ حکومت قطر سے معاہدے کے تحت ایل این جی لیتی ہے جو اس مرتبہ دسمبر اور جنوری سرپلس میں ہوگا لیکن اس معاہدے کے تحت حکومت اس کو آگے بیچ نہیں سکتی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دورے پر آئے آئی ایم ایف وفد کو پاور سیکٹر پر بھی بریف کیا جائے گا جس میں سرکولر ڈیٹ مینجمنٹ پلان پر ان کے ساتھ بات چیت کی جائے گی، آئی ایم ایف حکام کو تقسیم کار کمپنیوں کے نقصانات، بجلی چوری، لائن لاسز اور نجکاری پر بریف کیاجائے گا۔
پاور ڈویژن ذرائع کے مطابق بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کا عمل 2026 میں شروع ہوگا، نجکاری کے لیے حکومت کنسٹلٹس کی خدمات لے چکی ہے، آئی ایم ایف کو بجلی کی قیمتوں میں بروقت اضافے پر بریف کیا جائے گا۔