ایٹمی بجلی گھروں کی تنصیب اور عالمی رجحان
لاہور: (ڈاکٹر صبا انور) دوسری عالمی جنگ کے دوران سائنس اور ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کی اور دنیا نئی دریافتوں سے روشناس ہوئی۔ انہی دریافتوں کی بدولت انسان نے پہلی دفعہ بھاری قدرتی عناصر کے ذرات یعنی ایٹموں کو توڑ کر توانائی کے حصول کو ممکن بنایا۔ اسی توانائی کو ایٹمی توانائی کہتے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد مختلف ممالک نے اپنے طور پر اس توانائی کے پر امن استعمال کی کوششیں شروع کر دیں اور 1954 میں سوویت یونین نے دنیا کے پہلے ایٹمی بجلی گھر سے 6 میگاواٹ بجلی کی پیداوار میں کامیابی حاصل کی، دو سال بعد برطانیہ اور اس کے اگلے سال امریکہ نے بھی اس صلاحیت کا عملی مظاہرہ کیا۔
1960 کی دہائی میں جب تجارتی سطح پر ایٹمی بجلی کی صنعت کا آغاز ہوا تو مشرق اور مغرب کی صنعتوں کے مابین واضح سرحدیں تھیں، تاہم آنے والی دو دہائیوں کے دوران ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر و صنعت تقریبا سارے ترقی یافتہ ممالک تک پھیل گئی، آج ایٹمی بجلی گھروں کی صنعت بین الاقوامی تجارت بن چکی ہے، مختلف صنعتی ممالک دنیا بھر کے زیر تعمیر ایٹمی بجلی گھروں کو پرزہ جات فراہم کرتے ہیں، اسی طرح کینیڈا، آسٹریلیا اور وسطی ایشیائی ممالک کی کانوں سے نکالا گیا جوہری ایندھن (یور بینیم) دنیا بھر کے ایٹمی بجلی گھروں میں استعمال ہوتا ہے۔
اس وقت دنیا کے 31 ممالک میں 415 ایٹمی بجلی گھر کام کر رہے ہیں جن کی پیداواری صلاحیت تین لاکھ تہتر ہزار سات سو (373,700) میگاواٹ ہے جو دنیا کی کل بجلی کی پیداوار کا دسواں حصہ (10 فیصد) پیدا کر رہے ہیں، ایٹمی بجلی گھروں کی تعداد کے لحاظ سے درجہ بندی میں سر فہرست ممالک میں امریکہ 94، فرانس 56، چین 56 اور روس 36 بجلی گھروں کے ساتھ شامل ہیں۔
اس وقت فرانس اپنی کل بجلی کی پیداوار کا 75-70 فیصد ایٹمی بجلی سے حاصل کرتا ہے اور 10 ممالک بشمول ہنگری، فن لینڈ، بیلجیئم، سوئٹزر لینڈ وغیرہ اپنی کل بجلی کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ ایٹمی بجلی سے پیدا کرتے ہیں جبکہ امریکہ ، روس، اسپین اور متحدہ عرب امارات میں یہ شرح لگ بھگ 20 فیصد ہے۔
وطن عزیز میں اس وقت چھ ایٹمی بجلی گھر چل رہے ہیں جن کی پیداواری صلاحیت تین ہزار پانچ سو تیس (3,530) میگاواٹ ہے اور یہ بجلی گھر سالانہ مجموعی ملکی بجلی کی پیداوار کا17 سے 18 فیصد پیدا کر رہے ہیں۔
پچھلی دو دہائیوں سے ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر کے لحاظ سے چین ایک پر عزم ملک کے طور پر سامنے آیا ہے، چین نے ایٹمی بجلی گھروں کی ٹیکنالوجی میں ہر قسم کی صلاحیت اور مہارت حاصل کرلی ہے اور اس کو بین الا قوامی طور پر ایٹمی بجلی گھروں کی ٹیکنالوجی کو نصب کرنے کے لئے با قاعدہ سند یافتہ ملک قرار دیا گیا ہے، اس وقت دنیا بھر میں 62 ایٹمی بجلی گھر زیر تعمیر ہیں جن میں 28 صرف چین تعمیر کر رہا ہے۔
یہ پاکستان کی خوش قسمتی رہی ہے کہ چین جیسے دوست ملک نے ایٹمی بجلی گھروں کی ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کی اور اس کا بالواسطہ فائدہ ہمیں ہوا، چین کی مدد سے پاکستان نے نہایت قلیل عرصے میں اور مناسب سرمایہ کاری سے چھ ایٹمی بجلی گھر تعمیر کیے۔
موجودہ دور میں دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں نے ایٹمی توانائی کی اہمیت مزید بڑھادی ہے، اقوام متحدہ کی 28 ویں کا نفرنس برائے موسمیاتی تبدیلی (COP28) کے دوران دنیا کے تقریبا تمام ممالک اس بات پر متفق نظر آئے کہ ایٹمی توانائی کے بغیر دنیا میں ایک ماحول دوست توانائی کا نظام ممکن نہیں، تمام فریقین نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا کہ فوسل فیول پر انحصار ختم اور ایٹمی توانائی سمیت گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے مکمل پاک یا کم اخراج والی ٹیکنالوجیز کے استعمال کو تیز کیا جائے۔
COP28 کے دوران 24 ممالک نے وزراء کی سطح پر ایک اعلامیے کی حمایت کی جس میں 2050 تک عالمی ایٹمی توانائی کی صلاحیت کو تین گنا کرنے کا عہد کیا گیا، اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کئی ممالک نے اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایٹمی توانائی پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا۔ ان ممالک میں سعودی عرب، مصر، ازبکستان، قازقستان اور اردن جیسے ممالک شامل ہیں، مزید یہ کہ بنگلہ دیش، مصر اور ترکی بھی اپنے اولین ایٹمی بجلی گھر تعمیر کر رہے ہیں جبکہ افریقہ میں یوگنڈا نے بھی حال ہی میں روس سے معاہدہ کیا تا کہ اپنے ایٹمی توانائی کے پروگرام کو شروع کر سکے۔
ایٹمی توانائی کے بین الا قوامی تحقیقی ادارے انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 28 ممالک ایٹمی بجلی کے استعمال کے لیے منصوبہ بندی یا فعال طور پر کام کر رہے ہیں، ان ممالک میں 10 سے 12 ممالک 35-2030 کے دوران ایٹمی بجلی گھر تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ان تمام ممالک بشمول موجودہ ایٹمی بجلی گھر چلانے والے ممالک میں حکومتوں کو ایٹمی توانائی میں سرمایہ کاری کے لئے موزوں ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس میں پیشہ ورانہ اور خود مختار ریگولیٹری نظام کا قیام شامل ہے۔
تاہم نئے ایٹمی بجلی گھروں کے معاشی طور پر سود مند ہونے کا انحصار اس کی لاگت کے ساتھ ساتھ تعمیراتی مدت کے دورانیے پر بھی ہے۔ تعمیر ہو جانے کے بعد ایٹمی بجلی گھر کی بجلی کی پیداواری لاگت کم اور طویل عرصے کے لئے متوقع طور پر مستحکم ہوتی ہے، تاہم کئی عوامل کی وجہ سے متعدد اقتصادی خطرات رہتے ہیں جن میں انرجی مارکیٹ کے ضوابط ، علاقائی طور پر مسابقتی ٹیکنالوجیز کو ملنے والی رعایت، ایٹمی حفاظت کے قواعد ، منصوبے کی تعمیر کا دورانیہ اور معیار اور آپریشنل کار کردگی شامل ہیں۔
حال ہی میں انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے اگلے 25 سالوں کے لیے جوہری توانائی کے لئے مستقبل کی پروجیکشن کی دستاویز شائع کی ہے جس میں مستقبل کے دو ممکنہ منظر ناموں بشمول کم اور بلند کا تجزیہ کیا گیا ہے، ان دونوں صورتوں میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ ممالک مختلف چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے توانائی کے اس صاف اور قابل اعتماد ذریعے کی طرف دیکھ رہے ہیں، ان چیلنجوں میں توانائی کی یقینی دستیابی ، موسمیاتی تبدیلی اور اقتصادی ترقی شامل ہیں، اس دستاویز کے مطابق High Scenario کی صورت حال میں آج کی نسبت 2050 میں نصب شدہ جوہری بجلی گھروں کی پیداواری صلاحیت دگنا سے بھی زیادہ ہونے کے امکانات ہیں۔
اس سال برسلز میں IAEA کے تعاون سے نیو کلیئر انرجی سمٹ منعقد ہوئی جس میں یورپی یونین کے ساتھ ساتھ 32 ممالک کے وفود نے شرکت کی تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے، توانائی کی یقینی دستیابی کی ضمانت اور پائیدار ترقی کو آگے بڑھانے میں جوہری توانائی کی اہمیت پر توجہ مرکوز کی جاسکے، مذکورہ سمٹ میں پاکستانی وفد نے جوہری ٹیکنالوجی کے پر امن استعمال بالخصوص بجلی کی پیداوار میں قومی کامیابیوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے جوہری توانائی کی اہمیت پر زور دیا۔
ان تمام حقائق کی روشنی میں اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی سطح پر ایٹمی بجلی کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے اور دنیا کے بیشتر ممالک اپنے وسط مدتی اور طویل مدتی بجلی کے منصوبوں میں ایٹمی توانائی کے ایک موزوں تناسب سے آگاہ ہیں۔
مصنفہ پی ایچ ڈی سکالر اور معاشی امور کی ماہر ہیں، ساتھ ہی توانائی بحران کے قابل عمل حل پر جامع تحقیق کر رہی ہیں۔