پاکستان اور روس کی قربت,امریکہ میں بے چینی
پاکستان تقریباً چالیس سال تک روس کا حریف رہا ہے ،حالات بدل گئے ہیں امریکہ پاکستان کا دوست نہیں رہا
(دنیا کامران خان کے ساتھ ) ۔ روس اور پاکستان ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں دو روز پہلے وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ ایک بین الوزارتی وفد کے ساتھ روس میں تھے اس وفد میں وزرا اور پارلیمنٹ کے اہم لوگ شامل تھے ۔ اس سے پہلے پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی تعلقات میں اضافہ ہوا ہے پاکستان اور روس کے فوجی دستوں نے مشترکہ مشقیں بھی کی ہیں ۔دونوں ملکوں میں قربت میں اضافہ ہورہا ہے ۔ناصر جنجوعہ کے دورے کے فوری بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ماسکو پہنچے ہیں ان کی ماسکو میں اہم ملاقاتیں ہوں گی ۔ پاکستان اپنے سٹریٹجک حالات اور خطے کی پالیسی کے لحاظ سے ایک بڑی کروٹ لے رہا ہے ۔امریکہ کو یہ بات پسند نہیں آرہی اس سے امریکی بے چینی میں مزید اضافہ ہوگا،اس حوالے سے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے بتایا کہ عالمی تعلقات میں دلوں کی بات کم ہوتی ہے مفادات کی زیادہ ہوتی ہے ،حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے ،حالات واقعی تیزی سے بدل رہے ہیں میں تو یہ کہوں گا "دیر آید،درست آید"یہ بہت پہلے ہوجانا چاہئے تھااس سے پہلے 1999 میں پچیس سال میں پہلی بار برف پگھلی تھی ۔وزیر اعظم کی سطح پر پہلی بار روس کا دورہ ہوا تھااب پھر ایک بڑی واضح صورت نظر آرہی ہے اب بہت اچھی باتیں ہورہی ہیں لیکن یہ کہنا کہ کسی کا دل صاف ہو گیا ہے مناسب نہیں اصل بات مفادات کی ہے ہمارے پاس روس کے لئے بہت کچھ ہے ہمارا جغرافیائی اور سیاسی محل وقوع ہمارا سب سے بڑا سرمایہ ہے اب تک ہم نے اس کو ایک اثاثے کے بجائے ایک ذمہ داری بنا کر رکھا ہوا تھااب وقت آگیا ہے کہ اپنی محوری لوکیشن کو ایک اثاثہ کے طور پر استعمال کریں اور اس خطے میں اپنا حقیقی کردار ادا کریں ۔روس کے ساتھ تعلقات بڑی بنیادی تبدیلی ہے اس سے خطے میں یقیناً اچھی تبدیلی آئے گی ،دونوں ملکوں کو قریب لانے میں چین کا بھی اہم کردار ہے ۔چین کے مفادات بھی ہم سے ملتے ہیں ، یہ علاقائی اور عالمی سطح پر نئی صف بندی نظر آرہی ہے یعنی چین،روس اور پاکستان ۔ دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر)نعیم خالد لودھی نے دفاعی تعلقات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا امریکہ کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں پاکستان نے بڑے تدبر کا ثبوت دیا ہے امریکہ نے لگاتار کئی سیاسی اور معاشی اقدامات کئے ہیں اور ہر طریقے سے پاکستان کو دبائو میں لاتا رہا ہے ۔ہم کافی دیر تک امریکی دوستی کے زعم میں مبتلا رہے ہیں جبکہ امریکہ نے ہمیں تقریباً چھوڑ دیا تھا،امریکہ نے بھارت کو اس خطے میں اپنا پکا پارٹنر بنا لیا جس سے طاقت کا عدم توازن پیدا ہو گیا تھااور اس کو فطری طریقے سے بحال کرنے کی ضرورت تھی یہ بتدریج ہورہا ہے ابھی مکمل نہیں ہواتا ہم اس حوالے سے اہم پیش رفت شروع ہوگئی ہے اس میں جنرل قمر باجوہ کا دورہ روس قابل ذکر ہے ۔ اس سے قبل وزیر خارجہ نے چین کے صدر سے ملاقات کی ہے یہ قدرتی طور پر ایک بلاک بن رہا ہے اور لگتا ہے اس میں ایران اور ترکی بھی شامل ہو جائیں گے اس کے بعد ہی طاقت کا توازن بحال ہوپائے گا،ہمارے مفادات مشترکہ ہیں یہ مفادات افغانستان اور دیگر جگہوں پر بھی ہیں ۔روس کی بہت خواہش ہے کہ اس کو بحر ہند تک رسائی ملے اور وہ پاکستان ہی روس کو دے سکتا ہے ،امریکی رد عمل آرہا ہے اور مزید آئے گا،اس سلسلے میں پاکستان کے وزیر اعظم کو تعلقات کی بحالی کے لئے بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کی ایک آخری کوشش ضرور کرنی چاہئے لیکن شاید بھارت اس کو نہیں مانے گاہم نے بھارت کو سی پیک میں شرکت کی دعوت بھی دی ہے ہم ان کو امن کی دعوت دے رہے ہیں صرف ایک بات کہہ رہے ہیں کہ کشمیریوں پر ظلم بند کرے ۔ بے چینی