بجٹ:ایوان میں دھینگا مشتی ، گالی گلوچ کا رجحان کیوں؟
سیاستدانوں نے تاریخ سے سبق حاصل نہیں کیا، اپوزیشن خونخوار کیوں نظر آ رہی ہے
(تجزیہ: سلمان غنی) قطع نظر اس بات کے کہ حکومت کی جانب سے پیش کیا جانیوالا آئندہ مالی سال کا بجٹ کسی حد تک ملک و قوم ملکی معیشت اور معاشرے کے تمام طبقات کے لئے بہتر ہے یا نہیں لیکن بجٹ کے موقع پر ایوان کے اندر جمنے والی ہنگامہ آرائی نے یہ ضرور ظاہر کردیا کہ اگر حکومت روایات سے ہٹ کر کسی سے بجٹ پیش کراتی تو اپوزیشن بھی بجٹ پر کوئی موثر پیشقدمی کے بجائے صرف احتجاج اور واک آؤٹ پر ہی کیوں اکتفا کر سکتی ہے ایسا کیوں ہے ۔ آخرہمارے سیاستدان کیوں تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتے اور اگر منتخب اور معتبر ایوان کے اندر ہی ہمارے معزز اراکین پارلیمنٹ ایک دوسرے پرگالی گلوچ کرتے نظر آئیں گے تو اس کے اثرات قوم اور آئندہ نسل پر کیا ہوں گے ۔ جہاں تک اپوزیشن کے اس اعتراض کا تعلق ہے کہ مفتاح اسماعیل جو غیر منتخب مشیر کا درجہ رکھتے ہیں ان سے بجٹ تو پیش کرایا گیا ،باوجود اس امر کہ وزیر مملکت برائے خزانہ رانا افضل خان ایوان میں موجود تھے گو کہ اس امر کی روایت بے نظیر بھٹو صاحبہ کے دور میں بھی موجود، کہ ان کے مشیر خزانہ وی ای جعفری نے بجٹ تیار کیا مگر پیش مخدوم شہاب الدین نے کیا۔ لگتا یوں ہے کہ اس حوالے سے وہی مائنڈ سیٹ ہے جس نے اسحاق ڈار کے بعد رانا افضل خان کی وزیر مملکت کیلئے سمری کو اس وقت تک توڑ نہ پہنچایا جب تک مفتاح اسماعیل کو با اختیار مشیر کا درجہ نہ ملا ،گو کہ قانونی طور پر مفتاح اسماعیل کی جانب سے بجٹ پیش کروانے کا عمل درست تھا لیکن سیاسی اعتبار سے حکومت کی سبکی ہوئی ہے بجٹ دستاویزات پڑھنے کے بجائے پھاڑنے کا عمل اپوزیشن کے غیر سنجیدہ طرز عمل کا عکاس ہے ۔ غیر منتخب لوگوں کو مسلط کر کے اور با اختیار بنا کر حکومت نے اپنے لئے مصیبت کے بہت سے سامان پیدا کئے لیکن حالات بدلنے کے باوجود معاملات بدلتے نظر نہیں آتے دوسری جانب اپوزیشن جو بدلتے حالات میں خونخوار نظر آ رہی ہے اس نے بھی مفتاح اسماعیل کے بجٹ پیش کرنے کے عمل کو غیر ایشو بنا کر جو اصل کام تھا وہ نہیں کیا بجٹ پیش کئے جانے پر تھا کہ وہ بجٹ سازی کے عمل میں جو کرنے کے کام تھے اس پر آواز اٹھاتے اور بتاتے کہ ملکی معیشت کے حوالے سے حکومت کے کارہائے نمایاں کیا ہیں، اور آخر کیا وجوہات ہیں کہ عوام کی منتخب حکومتیں ملکی معیشت کو سنبھالا دینے ، موثر عملی پالیسیوں کے اثرات عوام تک پہنچنانے اور اصلاحات میں مقررہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہیں اور جہاں ایوان کے اندر بہت شور پایا جاتا ہے کہ روایات لائیں اور ان پر عملدرآمد ہونا چاہیے ، جبکہ اپوزیشن اپنا مثبت اور موثر کردار ادا کرنے کے بجائے نان ایشو کو ایشو بنانے میں سرگرم نظر آتی ہے اور وہ سالڈ اعتراضات نہیں اٹھائے جاتے جنہیں اٹھا کر حکومت کو ایوان کے اندر اور باہر ایکسپوز کیا جا سکے ۔ منتخب ایوان کے اندر اوئے اوئے گالی گلوچ اور دھینگا مشتی کے رجحان نے نہ تو سیاست کو محفوظ بنایا ہے اور نہ ہی اہل سیاست کی عزت و تکریم میں اضافہ ہوا ہے اور حقائق بھی یہی ہیں کہ ایسا کرنے والے درجنوں کی تعداد میں نہیں بلکہ اکا دکا ہیں اور غالباً یہ اپنی قیادت کے سامنے سرخرو ہونے کے لئے وہ بہت کچھ کر گزرتے ہیں جس کی اجازت کسی بھی مہذب ملک میں کوئی قوم اور ایوان نہیں دیتا۔پاکستان میں جاری جمہوریت اور جمہوری عمل استحکام کے بجائے انتشار میں تبدیل ہوتا نظر آتا ہے انتشار اور خلفشار کا عمل افر اد یا جماعتوں پر اثر انداز ہو یا نہ ہو لیکن ملکی معیشت پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے اور ہو رہا ہے بدقسمتی یہ ہے کہ ملکی معیشت ڈانواں ڈول ہے ، زر مبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر اور بے یقینی، بے چینی عروج پر ہے اور وہ جنہیں مل کر اس صورتحال کو سنبھالا دنیا ہے وہ آپس میں باہم دست و گریباں نظر آ رہے ہیں اور ایک دوسرے کو چور اور ڈاکو قرار دینے کی روش نے ملک میں جمہوریت کو کمزور کیا ہے ۔جب تک سیاستدان نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے اپنا قبلہ درست نہیں کرتے تو پھر ملک کے اندر جاری جمہوریت اور جمہوری عمل کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکے گی اور پھر عوام کی جمہوریت سے توقعات بھی مجروح ہوتی رہیں گی اور خود سیاستدانوں کے آگے بھی بڑے بڑے سوالات کندہ ہوں گے جس کے لئے تیار رہنا ہو گا۔