کلثوم نواز کی جدائی: نواز شریف کو کئی سیاسی حریفوں سے ملا دیا
پی پی اور ن لیگ میں برف پگھل گئی، زرداری کا جاتی امرا آنا سیاسی اثرات کا حامل؟ جیل میں ہونے کے باوجود نواز شریف سیاسی منظرنامے پر موجود نظر آتے ہیں
تجزیہ:سلمان غنی پیپلز پارٹی کی قیادت آصف زرداری اور بلاول بھٹو سمیت دیگر قائدین کی جاتی امراآمد اور نواز شریف سے بیگم کلثوم نواز کی وفات پر افسوس کا اظہار سیاسی طور پر تلخ ماحول میں برداشت اور دکھ کی کیفیت میں مل بیٹھنے کے کلچر کا تسلسل ہے ۔ بیگم کلثوم کے جمہوری کردار کی تعریف کے جذبات کا اظہار کر نا ظاہر کر رہا ہے کہ سیاست کے میدان سے وضع داری’ انکساری اور دکھ سانجھے ہونے کی کیفیت ختم نہیں ہوئی اور اب بھی ہماری سماجی روایات سیاست کی تلخیوں کو کم کرنے کا جوہر اپنے اندر رکھتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے تعزیتی جذبات کے سیاسی سطح پر کیا اثرات ہوں گے ؟ ن لیگ کے بعد پیپلز پارٹی کی صف اول کی قیادت بھی گھیرے میں ہے تو ان حالات میں مل کر ساتھ چلنے کا کوئی راستہ نکل سکتا ہے ؟ بیگم کلثوم نواز کی وفات اور قید و بند کی مشکلات آج بھی نواز شریف کو ملک کی سیاست کیلئے لازم و ملزوم قرار دے رہی ہیں تو کیا نواز شریف کا سیاسی کردار ختم کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں؟ اس وقت ملک میں بالعموم اور ن لیگ میں بالخصوص غم اور سوگوار سی کیفیت ہے کیونکہ ہمارے سماج میں خواتین کا احترام آج بھی لازمی سماجی تقاضا ہے خواہ خواتین چادر چار دیواری کی امین ہوں یا کارزار سیاست کی جدوجہد میں مصروف ہوں۔بیگم کلثوم نواز بھی زبان حال سے اس کیفیت پر پورا اترتی تھیں۔ مشرف دور میں بھی ان کی جمہوری جدوجہد نے نوابزادہ نصراﷲ خان کے ذریعے پیپلز پارٹی کی صفوں میں خوب پذیرائی حاصل کی تھی۔ دونوں جماعتیں ان دنوں بھی جمہوریت کی بحالی پر متفق ہوئیں اور یہی دباؤ فوجی آمر کو دفاعی پوزیشن پر لایا اور سعودی پیشکش کا مثبت جواب دے کر شریف فیملی کو جلا وطن کیا گیا۔ آزمائش اور دکھ کی گھڑی اس وقت بھی آئی جب محترمہ بینظیر بھٹو شہید ہوئیں تو میاں نواز شریف قریبی ہسپتال پہنچے ۔ ان تک شہادت کی خبر پہنچی تو آنسو جھلک پڑے تھے اور بعد میں آصف زرداری اور میاں نواز شریف سیاسی طور پر کافی قریب آ گئے تھے ۔ اس کے بعد ججوں کی بحالی پر وعدے اور مشترکہ عہد ہوئے اور مشترکہ اتحادی حکومت بھی تشکیل پائی۔ 2008 سے 2013 تک سیاسی محاذ آرائی اس نقطے تک نہیں پہنچی کہ 90 کی دہائی یاد آ جاتی۔ اب بھی پاناما بحران کے بعد پیپلز پارٹی نے ن لیگ مخالف کیمپ چن لیا جس کا ایک پس منظر تھا اور آصف زرداری نواز شریف دور میں کافی نالاں اور پریشان تھے ۔ ایک طرف آصف زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجانے کا نعرہ بلند کیا تو اگلے روز میاں نواز شریف نے آصف زرداری سے میاں عباس شریف کی تعزیت تک وصول نہ کی اور یوں اقتدار کو بحران سے بچانے کیلئے نواز شریف نے زرداری سے راستے جدا کر لیے ۔ اس کے بعد پاناما بحران پر نواز شریف کو زرداری سے حمایت نہ ملی اور پھر زرداری نے بلوچستان حکومت سے لے کر سینیٹ انتخابات اور نئی حکومت سازی پر ن لیگ کو خاصی مشکلات پیش کیں۔بیگم صاحبہ کی وفات پر دونوں سیاسی حریف مل بیٹھے ہیں تو کیا سمجھا جائے کہ اب جمی ہوئی برف پگھل جائے گی؟ برف اگر نہ بھی پگھلے تو کم از کم ری انگیجمنٹ ضرور ہو جائے گی۔ دونوں جماعتیں اپنے طور پر اعتماد سازی کی فضا کیلئے اپنے اپنے حصے کا کام ضرور کریں گی کیونکہ دونوں جماعتیں عمران خان کی نئی حکومت کے پاپولر اقدامات کی وجہ سے شدید دباؤ میں ہیں اور آصف زرداری سندھ میں کرپشن اور احتساب کے شکنجے سے لازمی طور پر پریشان ہیں۔ دونوں جماعتیں سیاسی میدان میں اپنے اثاثوں کی حفاطت اب ملکر کر سکتی ہیں۔ بیگم کلثوم نواز کی وفات پر یہ ملاقات نقطئہ آغاز بن سکتی ہے اور آنے والے دنوں میں آصف زرداری اور شہباز شریف قومی اسمبلی کے اندر بھی ہاتھ ملاتے نظر آ سکتے ہیں۔ اگر اس طرح کی کوئی سیاسی ڈویلپمنٹ پارلیمنٹ کے فلور پر ہوئی تو پھر خورشید شاہ اور ایاز صادق جیسے سیاستدان صورتحال کو مزید سنبھالا دے سکتے ہیں۔میاں نواز شریف کا احتساب اور اڈیالہ جیل میں قیدو بند کی اذیت کے بعد بیگم کلثوم نواز کی جدائی یقیناً ان کیلئے سخت حالات ہیں مگر یہ ساری صورتحال سیاسی منظر نامے پر نواز شریف کے گرد گھوم رہی ہے ۔ درحقیقت یہ اصل پریشانی ہے ’ نواز شریف مخالف حلقوں کیلئے ۔ نواز شریف کی جماعت اور ان کا اپنا سیاسی قد کاٹھ انہیں ایک لمبے عرصے تک پاکستانی سیاست میں لازم و ملزوم رکھے گا۔ جیل میں قید ہونے کے بعد آج بھی ہر خبر ان کی ذات کے گرد گھوم رہی ہے ۔ یہ ساری صورتحال انہیں سیاسی محاذ پر مزید بااثر بنا گئی ہے ۔ اسی طرح یہ مشکلات اور غم کی گھڑیاں مریم نواز کی لیڈرشپ کو بھی نئی زندگی دے رہی ہیں۔ میاں شہباز شریف کو ایک بہترین حکمت عملی کے ذریعے پیپلز پارٹی کو اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرنی ہے اور جونہی میاں نواز شریف کو کہیں سے قانونی ریلیف ملا تو پھر صورتحال دوبارہ نواز شریف جیسے زیرک سیاستدان کے ہاتھ آ جائے گی۔آصف زرداری کے ساتھ ایک اور اہم ترین ڈویلپمنٹ چودھری شجاعت کی نواز شریف سے تعزیتی ملاقات رہی۔ ماضی میں نواز شریف چودھری شجاعت کی والدہ کی تعزیت پر ان کے گھر پہنچے تھے ۔ چودھری شجاعت ہمیشہ کلثوم نواز کو اپنی بہن کا درجہ دیتے رہے اور مشرف مارشل لا میں سیاسی مخالفت کے باوجود چودھری شجاعت کا رابطہ بیگم کلثوم نواز سے رہا۔ چودھری شجاعت نماز جنازہ میں بھی شریک ہوئے اور اگلے روز اپنے بیٹے اور بھانجے مونس الٰہی کے ہمراہ تعزیت کرنے پہنچے ۔ یوں بیگم کلثوم نواز جاتے جاتے نہ صرف میاں نواز شریف کو سیاسی طاقت بخش گئیں بلکہ ان کے دیرینہ سیاسی حریفوں سے بھی انہیں ملا گئی ۔