راہول گاندھی کو اب کوئی پپو نہیں کہے گا
بھارت میں تین ریاستوں کے ودھان سبھا یعنی ریاستی اسمبلی کے انتخابات جیتنے کے بعد جب کانگریس پارٹی کے صدر راہول گاندھی ذرائع ابلاغ سے مخاطب ہوئے تو کئی ایسی باتیں کہہ گئے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ راہول اب ذمہ داریوں کیلئے تیار ہیں،
(بی بی سی ) عام طور پر انتخابات کے بعد ہونے والی پریس کانفرنسوں میں سیاسی جماعتوں کے رہنما پارٹی کے کارکنان کا شکریہ ادا کرتے ہیں لیکن اس مرتبہ راہول گاندھی نے الگ انداز میں میڈیا سے بات کی،پارٹی کارکنان کا شکریہ ادا کرنے کے بعد وہ سوالوں کے جواب دینے کے لیے اطمینان سے بیٹھے رہے ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے تین ریاستوں کی جیت نے انہیں نئی امید اور حوصلے سے بھر دیا ہے ، ان کے تیور بدلے بدلے سے تھے ،راہول گاندھی کے بدلے انداز کا ذکر پریس کانفرنس ختم ہوتے ہی ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پر بھی شروع ہو گیا،صحافیوں سے بات چیت کے دوران ان سے پوچھا گیا کہ بی جے پی ہمیشہ ‘کانگریس سے آزاد’ بھارت کی بات کرتی ہے ۔ کیا کانگریس کی واپسی کے بعد‘بی جے پی سے آزاد’ بھارت کا آغاز ہوگا؟،راہول نے بڑے ہی سلجھے ہوئے انداز میں جواب دیا کہ ہماری سوچ مختلف ہے ۔ بی جے پی کا اپنا ایک نظریہ ہے ،ہم اس نظریے کے خلاف لڑیں گے ، ہم نے ان کو آج شکست دی ہے ، ہم ان کو 2019 میں بھی شکست دیں گے ،اگر لوگوں کی سوچ ہم سے مختلف ہے تو ہم اس سوچ سے لڑیں گے ،ہم انہیں ملک سے مٹانا نہیں چاہتے ،برانڈ کنسلٹینٹ ہریش بجور کے مطابق ‘راہل گاندھی کے اس بیان میں ان کا سب کو ساتھ لے کرچلنے کا نظریہ صاف ظاہر ہوتا ہے ۔ کسی بھی جمہوریت کے لیے یہ بہت ضروری ہے ۔ بغیر حزب اختلا ف کے جمہوریت نہیں ہو سکتی، یہ بات راہول گاندھی سمجھتے ہیں اور یہی ان کے جواب میں ظاہر ہے ۔ ان کا یہی رویہ انہیں برانڈ مودی سے جدا کرتا ہے ،بھارتی سینئرصحافی نیرجا چودھری کہتی ہیں کہ راہول کا برانڈ تب بنے گا جب وہ عوام کی نبض پکڑ لیں گے اس مرتبہ راہول ایسا کرنے میں تھوڑا کامیاب تو ہوئے ہیں،کاشتکاروں کی بات کر کے انہوں نے ان سے تعلق ضرور قائم کر لیا ہے لیکن مودی کی طرح اب تک وہ جملہ بازی نہیں سیکھ پائے ہیں،تاہم نیرجا یہ بھی کہتی ہیں کہ راہول کی تازہ جیت نے ان کی اپنی جماعت کے اندر رہنما کے طور پر ان کی حیثیت میں اضافہ ضرور کیا ہے ،ہریش بجور کے بقول راہول گاندھی میں ابتدائی سیاسی اتار چڑھائوکے بعد اب جاکر ٹھہراؤ آیا ہے ،اچھی باتوں کو اپنایا ہے اور بری باتوں سے توبہ کر لی ہے ۔ یہ فتح ان کے لیے بہت کار گر ثابت ہوگی،ہریش بجور نے کہا کہ شکست کو وقار کے ساتھ تو قبول کیا جاتا ہے ، لیکن فتح کو وقار کے ساتھ کیسے قبول کرتے ہیں، یہ راہول گاندھی نے صاف دکھا دیا ہے ۔ ان میں کسی طرح کی اکڑ نہیں تھی اور پختگی صاٖف نظر آ رہی تھی،نیرجا چوہدری کے مطابق جس طرح راہول گاندھی نے میڈیا کے سوالات کے جواب دئیے اس سے پتہ چلتا ہے کہ راہول اب ایک منجھے ہوئے رہنما بن گئے ہیں۔ مودی کی طرح حزب اختلاف کو رد کرنے کی غلطی راہول نے نہیں کی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ راہول صرف اپنی ہی نہیں دوسروں کی غلطیوں سے بھی سیکھ رہے ہیں اور اصل برانڈ کی شناخت بھی اسی بات سے ہوتی ہے ۔نیرجا چوہدری کا خیال ہے کہ راہول اپنی ’’پپو‘‘والی امیج سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اپنے انتخابی دوروں کا ذکر کرتے ہوئے نیرجا بتاتی ہیں کہ اب انہیں سیاسی جلسوں میں کوئی پپو نہیں کہتا۔ لوگ انہیں ایک سنجیدہ کھلاڑی سمجھنے لگے ہیں۔ برانڈ راہول کے طور پر یہ ان کی بہت بڑی جیت ہے ۔