مودی حکومت کی ایک اور مسلم دشمنی
انڈیا کی مودی حکومت نے پڑوسی ملکوں میں مذہبی تفریق اور مظالم کا شکار ہونے والے ہندوؤں اور دیگر اقلیتی برادریوں کو ملک میں پناہ اور شہریت دینے کا ایک ترمیمی بل پیش کیا ہے
(بی بی سی ) انڈیا کی مودی حکومت نے پڑوسی ملکوں میں مذہبی تفریق اور مظالم کا شکار ہونے والے ہندوؤں اور دیگر اقلیتی برادریوں کو ملک میں پناہ اور شہریت دینے کا ایک ترمیمی بل پیش کیا ہے لیکن اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ۔لوک سبھا یعنی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں شہریت کا ترمیمی بل پیش کرتے ہوئے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا اس بل کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں مذہبی تفریق اور مظالم سے بچ کر بھارت میں پناہ لینے والے ہندوؤں، سکھوں، جین، پارسیوں، بودھ اور مسیحیوں کو شہریت حاصل کرنے کے عمل کو آسان بنانا ہے ۔راج ناتھ سنگھ نے کہا بنگلہ دیش اور افغانستان میں اقلیتوں کے لئے حالات پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر ہوئے ہیں لیکن پاکستان میں ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کو مذہبی تفریق کا سامنا ہے ۔اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے سے قبل ایوان کی قائمہ کمیٹی کو بھیجا گیا تھا۔ کمیٹی میں شامل حزب اختلاف کے ارکان نے اس میں مسلمانوں کو بھی شامل کرنے کی ترمیم پیش کی تھی لیکن حکمران جماعت کے ارکان نے کمیٹی میں اکثریت کے ذریعے ترمیم کو مسترد کر دیا۔ بعض ارکان نے نیپال اور سری لنکا کو بھی شامل کرنے کی تجویز رکھی تھی جسے رد کر دیا گیا۔ملک میں دوسرے ممالک سے آنے والی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے قانون سازی کے خلاف ماضی میں بھی احتجاج ہوتے رہے ہیں۔شہریت کا یہ ترمیمی بل ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے جب شمال مشرقی ریاست آسام میں غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن کی شناخت کے لئے تمام شہریوں کے شہریت کی دستاویزات کی جانچ کی جا رہی ہے ۔ اس عمل میں چالیس لاکھ ایسے بنگالی باشندے سامنے آئے ہیں جن کی شہریت کے دعوے کو تسلیم نہیں کیا گیا ۔ انہیں اپنے دعوے کے حق میں اضافی ثبوت پیش کرنے کے لئے کچھ مہلت دی گئی ہے لیکن اس عمل سے ریاست میں بے چینی پیدا ہو گئی ہے ۔اس بل کے ذریعے بی جے پی کا مقصد آسام میں غیر قانونی قرار پانے والے لاکھوں ہندوؤں اور ماضی میں پاکستان سے دلی، جموں، راجستھان، ہریانہ اور پنجاب آنے والے لاکھوں ہندوؤں کو شہریت دینا ہے ۔ اگرچہ اس کا ایک انسانی پہلو ہے لیکن آسام اور تمام شمال مشرقی ریاستوں میں خود بی جے پی کے اتحادی اس بل کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ اس بل کے منظور ہونے سے بنگلہ دیش کے ہندوؤں کو ان کی ریاستوں میں آ کر بسنے کی ترغیب ملے گی۔پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کی جماعتیں اس وجہ سے اس کی مخالفت کر رہی ہیں کہ اس میں مذہب کے نام پر مسلمانوں کو پناہ دینے سے انکار کیا گیا ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ تینوں پڑوسی ملکوں میں اگر ہندوؤں اور دوسری اقلیتی افراد کے ساتھ تفریق ہوگی تو ان کے پاس انڈیا میں پناہ لینے کے سوا دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے لیکن اگر مسلمانوں کا سوال آتا ہے تو ان کے سامنے بہت سے آپشنز ہیں۔ترنمول کانگریس کے رہنما سوگت رائے نے اس بل کی مذمت کرتے ہوئے کہا اس بل میں مسلمانوں کو کیوں نہیں شامل کیا گیا حکومت مذہب کی بنیاد پر پھوٹ ڈال کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے ۔مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اسد الدین اویسی نے کہا بل سے بی جے پی کی مسلمانوں سے نفرت کی بو آتی ہے ، بی جے پی انڈیا کو اسرائیل بنانے کی کوشش نہ کرے ۔حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس نے شہریت کے ترمیمی بل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے ۔ آسام میں بی جے پی کی ایک اتحادی جماعت اس بل کی مخالفت میں بی جے پی کے اتحاد سے الگ ہوگئی ہے ۔اس بل کی منظوری کے لئے اسے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت سے پاس کرنا پڑے گا۔