گرینڈ حیات ہوٹل میں50فلیٹس مالکان ٹیکس نادہندہ نکلے
کروڑوں کے فلیٹ رکھنے والے40مالکا ن ابھی تک ایف بی آر کے پاس رجسٹرڈہی نہیں ٹیکس نہ دینے والوں میں عامر مگسی ،افضل ساون،سکینہ گل نواز ، امتیاز خان ودیگرشامل ثاقب برجیس ،سجاد ہوتیانہ ،ڈاکٹر رضوان سمیت12افرادنے گوشواروں میں ظاہرنہ کیے ٹھیکیدار نے اپنی اور شراکت داروں کی 3کمپنیوں کو بھی 30کروڑ کے 14 فلیٹس دیدیئے دونوں فلیٹ ٹیکس حکام کو ڈکلیئر کردیئے ،ڈاکٹر رضوان ،سجاد ہوتیانہ سے موقف نہ مل سکا کچھ لوگوں نے ٹیکس استثنیٰ سکیم سے فائدہ اٹھا یا،ابھی تحقیقات جاری ہیں، ترجمان ایف بی آر
لاہور (شاہد اسلم)گرینڈ حیات ہوٹل کے کروڑوں روپے کے مہنگے فلیٹس کے کم از کم 50 کے قریب مالکان مبینہ طور پر ٹیکس نادہندہ نکلے ،ٹیکس چھپانے والے مالکان نے اسلام آباد کے گرینڈ حیات میں تقریباً 2ارب روپے کے مہنگے فلیٹس خرید رکھے ہیں۔منصوبے کے ٹھیکیدار نے اپنی اور شراکت داروں کی 3کمپنیوں کو بھی 30 کروڑ کے 14 مہنگے فلیٹس دے دیئے ۔دنیا کو موصول سرکاری دستاویزات کے مطابق 40 کے قریب فلیٹس مالکا ن ایف بی آر کے ساتھ ٹیکس کیلئے رجسٹرڈہی نہیں ہیں۔ اسی طرح ایک درجن کے قریب ایسے خریداروں کا بھی معلوم ہوا ہے جنہوں نے کئی سال گزرنے کے باوجود ٹیکس گوشواروں میں اپنے ان فلیٹس کو ظاہر ہی نہیں کیا۔جو خریدارابھی تک ٹیکس حکام کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں اور نہ ہی ٹیکس دیتے ہیں لیکن مہنگے ترین فلیٹس کے مالک ہیں ان میں عامر مگسی 5 کروڑ روپے سے زائد کی مالیت کا ایک فلیٹ C04A ، محمد افضل ساون تین کروڑ 50لاکھ کا ایک فلیٹ C03B ، سکینہ گل نواز4 کروڑ کا ایک فلیٹC01B ، محمد شعیب بیگ 3 کروڑ سے زائد کا ایک فلیٹ C05E ، امتیاز خان 3 کروڑ سے زائد کا ایک فلیٹ C06E ،آمنہ پراچہ4 کروڑ کا ایک فلیٹ C09B ، نبیلہ خان80 لاکھ کا ایک فلیٹ B01D ، فرحت محمود ایک کروڑ 10لاکھ کا فلیٹB04G ، جہانگیر خان 3کروڑ 30لاکھ کا فلیٹ B05A ، ڈاکٹر مطیب مکرم شاہ ایک کروڑ 80 لاکھ کا فلیٹ B05B ، ڈاکٹر جاوید احمد 2کروڑ کا فلیٹ B07E ، شاہد محمود 2کروڑ کا فلیٹB07F ،عرفان اﷲ خان ایک کروڑ کا فلیٹ B07G ، صاحبزادہ آصف محمود ایک کروڑ 80لاکھ کا فلیٹB10B ، محمد نجیب خان ایک کروڑ 10دس لاکھ کا فلیٹ B11G ، اشماء اماد 85 لاکھ کا فلیٹ B14C ، عائشہ ندیم 5 کروڑ سے زائد مالیت کا فلیٹB14F ، ایذد ایوب 6کروڑ 40 لاکھ کا فلیٹ B16C ، واجد حسین 2کروڑ 40 لاکھ کا فلیٹ C17B ،رحمن ڈھلوں4کروڑ 40لاکھ کا فلیٹC13A، ڈاکٹر اجمل ملک 7کروڑ 84لاکھ کا فلیٹB17A، عبد الوحید2کروڑ کا فلیٹB12C، احمد مصطفی جیلانی ایک کروڑ 50لاکھ کا فلیٹB03B، سہیل درانی85 لاکھ کا فلیٹB05F ،پروین رشید 7کروڑ کا فلیٹ C16C،حبیب الرحمن کا فلیٹ C17A، مس بشریٰ رحیم خان ایک کروڑ سے زائد کا فلیٹ B12F اورماہ رخ علی/زویا علی 85 لاکھ کے ایک فلیٹ C19C کی مالک ہیں۔ اسی طرح ایک درجن کے قریب ایسے خریداروں کا بھی سراغ لگایا گیا ہے جنہوں نے ان فلیٹس کو اپنے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا، ان میں پاکستان مسلم لیگ کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر برجیس طاہر کے صاحبزادے ثاقب برجیس کے ایک کروڑ سے زائد مالیت کے دو فلیٹسC18A اورC19B ہیں لیکن انہوں نے اپنے 2017 تک کے ٹیکس گوشواروں میں انہیں ظاہر نہیں کیا۔سجاد سلیم ہوتیانہ سابق چیف سیکرٹری سندھ اور گلگت بلتستان جو آج کل ممبر پنجاب پبلک سروس کمیشن تعینات ہیں نے 2013میں ایک کروڑ 80 لاکھ کا فلیٹ B19D خریدا مگر ٹیکس سال 2017 تک ڈکلیئر نہیں کیا،ایمرجنسی سروس ریسکیو1122کے سربراہ ڈاکٹر رضوان نصیر اور ان کے بھائی نعمان نصیر کے 3 کروڑ40 لاکھ کے دو فلیٹس C06G اور C07G 2013سے خریدے گئے مگرٹیکس سال 2017 تک انہیں ڈکلیئر نہیں کیا گیاتھا، نازیہ عامر کا 2کروڑ 70لاکھ کا فلیٹC06F ، ڈاکٹر اسجد حمید 3کروڑ کا فلیٹC13E ، گل رخ اظہر 2کروڑ50لاکھ کا فلیٹ C06B ، عائشہ اقبال خان 3کروڑ 20لاکھ کا فلیٹ C08E ، طاہرہ سواتی ایک کروڑ کا فلیٹC16A اور شبنم نوید 2014 سے فلیٹB17D کی مالک ہیں مگر ٹیکس گوشواروں میں انہیں ظاہر نہیں کیا۔یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کچھ ایسے لوگوں کا بھی پتہ چلا ہے جنہوں نے یہ فلیٹس تو کئی سال قبل خریدے مگر ٹیکس دیناکچھ ماہ قبل ہی شروع کیا ان میں نعیم چاولہ نے 2012 میں1کروڑ 70لاکھ کے دو فلیٹB07Cاور B08C خریدے مگر ایف بی آر کو دسمبر 2017میں ٹیکس دینا شروع کیا،سلیمان خان نے 2013میں 5کروڑ60لاکھ سے زائد میں ایک فلیٹB20Aخریدا مگر ایف بی آرکو مئی2018 میں ٹیکس دینا شروع کیا، ذوالقرنین شاہ سیدنے 2015میں کروڑوں روپے کا فلیٹ B10E خریدا مگر ایف بی آ ر کو جون 2018میں ٹیکس دینا شروع کیا،احسن عظیم/نادیہ عظیم نے 2014 میں4کروڑ کا ایک فلیٹ C07A خریدا مگر جنوری 2019 میں ٹیکس دینا شروع کیا اور ثروت ذیشان لودھی نے 2013 میں2 کر وڑ 20لاکھ کا ایک فلیٹ B03E خریدا مگر مئی 2018میں ٹیکس دینا شروع کیا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ 30 کروڑ کے 14 فلیٹس تین کمپنیوں میسیرز ٹرائی ٹیکس پرائیوٹ لمیٹڈ، اسٹیٹ ون پرائیوٹ لمیٹڈ اور بسم اﷲ ٹیکسٹائل لمیٹڈ کی ملکیت ہیں اور یہ کمپنیاں بی این پی پرائیویٹ لمیٹڈکے مالک اور گرینڈ حیات منصوبے کے ٹھیکیدار عبد الحفیظ شیخ اور ا ن کے شراکت داروں کی ہیں۔تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا یہ 14فلیٹس بھی ان کمپنیوں نے اپنے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کیے ہیں یا نہیں۔کئی مرتبہ رابطہ کرنے کے باوجود سجاد سلیم ہوتیانہ موقف کیلئے دستیاب نہیں تھے جبکہ دوسری طرف ستمبر 2018 میں جب ڈاکٹر رضوان نصیر سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا یہ فلیٹس انکے والد نے خریدے تھے اور انہیں ابھی والد سے ملے ہیں اس لیے ڈکلیئر نہیں کیے لیکن اگلے سال ڈکلیئر کردیں گے ۔جب رضوان نصیر سے کچھ دن قبل دوبارہ رابطہ کیا گیا تو انکا دعویٰ تھا کہ انہوں نے دونوں فلیٹس ٹیکس حکام کے سامنے ڈکلیئر کردیئے ہیں۔ بعض خریداروں نے دنیا نیوز کو بتایا کہ جب تک انہیں انکے ٖفلیٹس کا قبضہ نہیں مل جاتا تب تک ان پرلازم نہیں کہ وہ ڈکلیئر کریں۔