نئی عدالتوں کے حکم نے گیند حکومت کے کورٹ میں ڈال دی
احتساب نعروں سے نہیں بلکہ کرپٹ عناصر کے خلاف قانونی اقدامات سے ہوگا حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے ، اچھی شہرت کے حامل ججز مقرر ہونے چاہئیں
(تجزیہ: سلمان غنی) کرپشن کے مقدمات کے فوری فیصلوں کیلئے 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام کے حکم نے گیند حکومت کے کورٹ میں ڈال دی، سوال یہ ہے کہ ان 120 عدالتوں کیلئے اہل ججوں کا انتخاب کیسے ہوگااور وہ کیا تین ماہ کے اندر مقدمات میں انصاف کے تقاضے پورے کر پائیں گے ؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بروقت انصاف اور مؤثر احتساب ممکن نہیں بنا ، مقدمات ہی تاخیر سے بنتے رہے ، جب مقدمات عدالتوں میں آئے تو گواہوں کی عدم موجودگی اور شواہد کے ضائع ہونے سے ملزم بری ہوگئے ، چیف جسٹس کی جانب سے دئیے جانے والے احکامات پر عمل ہوگا تو نئی عدالتوں کے قیام سے ججز پر دباؤ میں کمی آئے گی اور وہ اپنی عدالتوں میں بڑے مقدمات سے انصاف کر پائیں گے ۔ احتسابی عمل کی حامی حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتساب عدالتوں کے عمل کو مکمل بنانا چاہیے ، اچھی شہرت کے حامل ججز کی تقرریاں ہونی چاہئیں اور احتساب کورٹس کے ذریعہ کرپٹ افراد کو ان کے انجام تک پہنچانے میں پیش رفت ہوتی نظر آنی چاہیے ،احتساب نعروں سے نہیں بلکہ کرپٹ عناصر کے خلاف قانونی اقدامات سے ہوگا،چیئر مین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال نے ایک اجلاس میں بتایا کہ نیب نے 466 ارب روپے بدعنوان عناصر سے لے کر قومی خزانہ میں جمع کرائے ۔ نیب افسران بدعنوانیوں کا خاتمہ قومی فرض سمجھ کر ادا کر رہے ہیں ، مذکوہ کارکردگی اپنی جگہ لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ نیب کتنے لوگوں کو کرپشن اور بدعنوانی میں سزا دلوانے میں کامیاب رہا اور یہ کہ نیب کی قومی ادارے کے طور پر ساکھ کیونکر نہیں بن پا رہی اور حکومت میں موجود کرپٹ عناصر اور مافیاز اس کی دسترس سے باہر کیوں ہیں؟۔