محاذ آرائی نے ملک کو دفاعی کیفیت میں لاکھڑا کیا
(تجزیہ:سلمان غنی) پی ٹی آئی کی سیاست میں جارحانہ عزائم اور احتجاج کاحامی گروپ غالب آچکا ہے جس کی قیادت پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے پاس ہے اور اسی بنا پربانی پی ٹی آئی بھی ان پر اعتماد کرتے ہوئے احتجاجی عمل کی ذمہ داری انہیں سونپتے نظر آتے رہے ہیں۔
گزشتہ روز بھی علی امین گنڈا پور بانی پی ٹی آئی سے اڈیالہ جیل میں مل کر باہر آئے تو انہوں نے اپنے مخصوص جارحانہ اندازمیں احتجاجی جلسہ پشاور کی بجائے 9نومبر کو صوابی میں کرنے اور صوابی سے ہی سڑکوں پر نکلنے کا اعلان کیا۔ ان کا بیان ظاہر تو یہ کررہا ہے کہ وہ کسی نئے سیاسی طوفان کیلئے پرعزم ہیں اور سمجھتے ہیں عوامی اور سیاسی طاقت کو بروئے کار لاکر ہی وہ سرخرو ہونگے لہٰذا اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ پی ٹی آئی احتجاجی تحریک پر کیوں بضد ہے ۔احتجاجی جلسوں کا اعلان کیا سیاسی طوفان برپا کر پائے گا اورحکومت کی اس حوالہ سے حکمت عملی کیا ہوگی۔ بلا شبہ صوابی کا جلسہ کامیاب ہوگا کیونکہ صوابی پختونخوا کا حصہ ہے اور حکومت پی ٹی آئی کی ہے اور وزیر اعلیٰ نے جلسہ کی کامیابی کی ذمہ داری خود لی ہے لیکن جہاں تک احتجاجی تحریک کا سوال ہے تو اس حوالہ سے دو آرا ہیں۔دوسری جانب حکومت کو بھی غیر معمولی صورتحال پر قابو پانے کیلئے کچھ کرنا ہوگا ۔محاذ آرائی کی کیفیت نے ملک کو دفاعی کیفیت میں لاکھڑا کیا ہے ۔ اصل طاقت جمہوری عمل ہے جمہوری طرز عمل اختیار کر کے مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے جو سیاستدان طرز عمل اختیار کرنے کو تیار نہیں وہ کچھ بھی ہو جمہوری نہیں ہوسکتے ۔