سیاسی قوتوں کو مذاکراتی عمل کی ٹائمنگ کو اہم سمجھنا چاہئے
(تجزیہ: سلمان غنی) سیاسی محاذ پر خوش آئند امر یہ کہ حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے تحفظات کے ساتھ بامقصد مذاکرات کی بات کرتی نظر آ رہی ہیں اور ان میں جہاں جمہوری عمل اور جمہوریت کی مضبوطی بارے اتفاق رائے نظر آ رہا ہے۔
وہاں وہ یہ بھی کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ آپس میں ایک دوسرے کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے اور متنازعہ معاملات مل بیٹھ کر حل کیے جائیں لہٰذا اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ یہ سیاسی جماعتوں کی خواہشات ہیں یا ان کے پیچھے کچھ خدشات ہیں اور کیا مذاکراتی عمل سنجیدگی سے طے ہوگا اور اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے ۔حقیقت یہ ہے کہ سیاسی محاذ پر تناؤ اور ٹکراؤ کی کیفیت نے سیاسی خلیج یا تقسیم پیدا کی ہے اس لئے کہ صرف معاشرے کو تقسیم کیا ہے اور آج منفی نفرت کے اس عمل نے سنجیدہ افراد میں بھی مایوسی طاری کر رکھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب خود سیاسی جماعتوں کے اندر یہ تحریک محسوس کی جارہی ہے کہ انہیں بھی اپنے سیاسی مستقبل کے حوالہ سے خطرات و خدشات لاحق ہیں اور اسی بنا پر ہی اب مذاکرات اور ڈائیلاگ کی بات کی جا رہی ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ اگر نومبر میں سیاسی تناؤ اور ٹکراؤ کی بات عروج پر تھی تو دسمبر میں مذاکرات کی ضرورت کا احساس غالب نظر آتا رہا اور حقیقت یہ ہے کہ اب نہ صرف تحریک انصاف سنجیدگی سے مذاکرات کی بات کرتی ہے اور مذاکرات کی نتیجہ خیزی پر زور دیتی نظر آ رہی ہے تو دوسری جانب حکومتی جماعت کے ذمہ داران اور اتحادی بھی مل بیٹھ کر متنازعہ ایشو اور آپس میں ناچاقی کے سدباب کی بات کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔
البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ یہ سارا عمل اس انداز میں چلے گا ویسے تو مذاکراتی عمل میں سنجیدگی دیکھی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ بحرانی اور ہیجانی کیفیت سے نکلنے کی ذمہ داری کی ایک فریق پر نہیں بلکہ سب فریقین یا کرداروں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور آگے بڑھنا ہوگا اور یہ اسی صورت ممکن ہے کہ مجموعی طور پر قومی مفادات ریاستی حکومتی یا گورننس کے بحران کی سنگینی کا احساس ہو اور خود عوام کے اندر پیدا شدہ تحفظات پر بھی نظر ہو لیکن اگر اس عمل کو بھی اپنے اپنے سیاسی مفادات تک محدود کرنے کی کوشش کی گئی اور کسی بھی ایشوز پر ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ ہو تو اس سے خود سیاسی سسٹم کو بڑے چیلنجز درپیش ہوں گے اور پھر یہ مسائل داخلی نوعیت تک محدود نہیں رہیں گے جو مزید نئے مسائل کو جنم دیں گے اور آج کے دور میں مخالفت کو دشمنی میں تبدیل کرنے کا کھیل بنا کر نہ تو سسٹم کو چلایا جا سکے گا اور نہ ہی انہیں حوصلہ افزائی ہوگی۔
لہٰذا اس حوالہ سے سیاسی قوتوں کی ذمہ داری کا احساس بھی کرنا ہوگا اور بہت سوچ بچار کے ساتھ آگے چلنا ہوگا اور خود سیاسی جماعتوں کو اس مرحلہ پر اس امر کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ ان کے موجودہ طرز عمل سے لوگ سیاسی اور جمہوریت کے مقام سے لاتعلق ہونے جا رہے اور ان کا فائدہ جمہوری قوتوں کو کم اور غیرجمہوری قوتوں کو زیادہ ہو رہا ہے اگر سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں نے اپنے اندر جمہوریت کو یقینی نہ بنایا اور سیاسی طرز عمل نہ اپنایا تو اس کا زیادہ نقصان جمہوری قوتوں اور قیادتوں کو ہی ہوگا اس لئے کہا جا رہا ہے کہ یہ مذاکراتی عمل بظاہر تو متنازعہ ایشوز اوربحرانی کیفیت سے نکلنے کی ایک کوشش اور کاوش ہے لیکن اس عمل کے ذریعہ جمہوریت انسانی حقوق آئین قانون کی بالادستی اور خصوصاً پاکستان میں گورننس کے عمل کے ساتھ جوڑنا پڑے گا کیونکہ یہ بنیادی ذمہ داری سیاسی جماعتوں کی بھی ہوتی ہے ۔سیاسی قوتوں کو مذاکراتی عمل کی ٹائمنگ کو اہم سمجھنا چاہیے اس لئے کہ خطے کے حالات خصوصاً مغربی بارڈر پر پیدا شدہ صورتحال کا پاکستان زیادہ دیر متحمل نہیں ہو پائے گا بلاشبہ مسائل کا حل یہی ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادتیں مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں لیکن کیا آج کی صورتحال میں ایسا ممکن ہوسکتا ہے فی الحال تو ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا ۔تاریخ یہ بتاتی ہے کہ آپس میں مل بیٹھنے کیلئے تیار نہ ہونے والی قیادت تب مل بیٹھنے کیلئے تیار ہوتی ہے جب جمہوریت کا بستر گول ہو جاتا ہے ۔