مذاکرات سے سیاسی درجہ حرارت کم ،نتائج پر سوالیہ نشان برقرار

 مذاکرات سے سیاسی درجہ حرارت کم ،نتائج پر سوالیہ نشان برقرار

(تجزیہ:سلمان غنی) حکومت اپوزیشن مذاکراتی عمل کے نتیجہ میں سیاسی درجہ حرارت میں کمی تو آئی ہے مگر مذاکراتی عمل کے ٹائم فریم اور نتیجہ خیز ہونے پر سوالیہ نشان ہے اور اس حوالہ سے فریقین کوئی حتمی بات کہنے کیلئے تیار نہیں، اب تک ہونے والی دو نشستوں میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوسکا۔

پی ٹی آئی والے بانی اور رہنماؤں کی رہائی کے ساتھ9مئی اور26نومبر کے واقعات پر کمیشن کے قیام پر زور دیتے نظر آئے تاہم اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ باضابطہ دینے سے گریز کیا،ان کاکہناہے کہ باضابطہ چارٹر آف ڈیمانڈ کیلئے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرنی ہے اس کیلئے حکومت سہولت فراہم کرے ۔اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ پی ٹی آئی باضابطہ چارٹ آف ڈیمانڈ دینے سے گریز کیوں کررہی ہے اور کیا وجہ ہے کہ مذاکراتی عمل میں فریقین میں سے کسی کوبھی جلدی نہیں آرہی اور کیا مذاکراتی عمل نتیجہ خیز بن پائے گا ۔ جہاں تک پی ٹی آئی کی جانب سے چارٹر آف ڈیمانڈ میں تاخیر کاسوال ہے تو اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی باضابطہ طور پر ایسی کوئی تحریر حکومت کے سامنے پیش نہیں کرنا چاہتی کہ جس میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا مطالبہ شامل ہو کیونکہ اس سے اس بیانیہ کی نفی ہوجائے گی جس پر ان کی مقبولیت اور سیاسی کردار کا دارومدار ہے ،وہ اس بات پر زور دیتے نظر آتے ہیں کہ جب تک بانی پی ٹی آئی رہا نہیں ہوجاتے سیاسی محاذ پر تلخی جاری رہے گی لہٰذا وہ ان کی غیر اعلانیہ طور پر بنی گالہ منتقلی کا مطالبہ بھی کرتے نظر آتے ہیں اور دعوی ٰکرتے ہیں کہ انہیں اس کی آفر بھی ہے جبکہ حکومت اس امرکی تردید کرتی ہے ۔

جہاں تک بانی پی ٹی آئی سے ملاقات پر چارٹرآف ڈیمانڈ کا انحصار ہے تو لگتا یوں ہے کہ چارٹر آف ڈیمانڈ میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی بجائے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی رہائی کو بنیاد بناتے ہوئے حکومت پر دباؤ ڈالا جائے گا ،دوسرا مطالبہ جوڈیشل کمیشن کے قیام کا ہے لیکن لگتاہے پی ٹی آئی خودکو ان دو مطالبات تک محدود نہیں رکھ سکے گی ۔ اس مذاکراتی عمل کا سیاسی محاذ پر اتنا فائدہ ضرور ہوا ہے فریقین میں برف پگھلی ہے ،سیاسی درجہ حرارت میں کمی آئی ہے ایک دوسرے کا موقف سننے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملا ہے اور ایک عام تاثر یہ بھی بن رہا ہے کہ مذاکراتی عمل فریقین کی اندرونی تحریک کے نتیجہ میں نہیں بلکہ بین الاقوامی حالات اور خصوصاً امریکہ سمیت یورپی یونین کے پاکستان کے بعض معاملات پر آنے والے تحفظات کے تناظر میں ہے ۔یہ سارا سلسلہ26ویں آئینی ترمیم کے بعد شروع ہوا ،بظاہر تو پی ٹی آئی نے اس ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں دیا لیکن اس ترمیم کی تیاری کے اجلاسوں میں شرکت کی ۔فریقین مذاکرات میں جلدی بھی نہیں دکھارہے جس کا مطلب ہے کہ مستقل قریب میں کسی بڑے بریک تھرو کا امکان نہیں ۔دوسری طرف 9مئی کے 19مجرموں کی سزا معافی کو مفاہمتی عمل سے جوڑا جارہاہے ،کچھ معتبرحلقوں کاکہناہے کہ 20جنوری سے پہلے اچھی خبریں آسکتی ہیں ،یہ وہ وقت ہے جب نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار سنبھال رہے ہونگے تاہم عالمی اور علاقائی صورتحال پرخصوصی توجہ رکھنے والی شخصیات کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کو اتنی فرصت نہیں ہوگی کہ وہ پاکستان کے حالات یہاں کی کچھ شخصیات کے حوالہ سے کچھ کہنے کا سوچے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں