دہشت گردی بڑا چیلنج :جس یکسوئی کی ضرورت وہ نظر نہیں آ رہی

دہشت گردی بڑا چیلنج :جس یکسوئی کی ضرورت وہ نظر نہیں آ رہی

(تجزیہ: سلمان غنی) دہشت گردی کا رجحان حکومت کیلئے بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے اور کوئی دن ایسا نہیں جا رہا کہ ملک کے کسی حصہ میں دہشت گرد اپنے مذموم ایجنڈا کے تحت سکیورٹی اداروں کو ٹارگٹ کرتے یا تخریب کاری کرتے نظر نہ آتے ہوں۔۔۔

 ایسی صورتحال میں دہشت گردی اور تخریب کاری کے حوالے سے جس یکسوئی اور سنجیدگی کی ضرورت نظر آنی چاہئے تھی وہ نظر نہیں آ رہی اور اب جبکہ دہشت گردی کے اس عمل بارے ماہرین یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ دہشت گردی کا یہ عمل اس لئے خطرے سے خالی نہیں کہ یہ سلسلہ بڑا منظم ہے اور اس کے تانے بانے ہمسایہ ممالک سے ملتے ہیں تو پھر اس کے جواب میں ہمارا ردعمل کتنا منظم ہے لہٰذا اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ آخر دہشت گردی کا یہ سلسلہ دراز کیوں اس کے پیچھے کون اور کیوں ہے ۔ سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ فوجیں ہمیشہ وہی سرخرو ہوتی ہیں جنگوں میں جن کے پیچھے قوم کھڑی ہوتی ہے ، دہشت گردی کے خلاف ہمارے پاس ایک نیشنل ایکشن پلان موجود تھا ،اس حوالہ سے برتی جانے والی مجرمانہ غفلت کا شاخسانہ آج دہشت گردی کے رجحان میں آنیوالے طوفان سے لگ رہا ہے اور اگر دہشت گردی کی بڑی وارداتوں کی تحقیقات کی جائے تو اس میں سے بیشتر واقعات کے تانے بانے افغان سرزمین تک جاتے نظر آتے ہیں۔ خود افغان انتظامیہ میں موجود بعض عناصر کی تائید بھی دہشت گردوں کو حاصل ہے اور پاکستان کی جانب سے شواہد مہیا کرنے کے باوجود افغان طالبان اپنی بنیادی ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ افغان سرزمین دہشت گردوں کی ہی دکھائی دیتی ہے جہاں انہیں کسی بات کا کوئی خوف نہیں افغان طالبان کو اس بات کا بھی پاس نہیں کہ دہشت گردی کا یہ عمل ان کے محسن ملک پاکستان کے خلاف ہے ۔افسوسناک امر یہ ہے کہ طالبان حکومت پاکستان کے خلاف اشرف غنی، حامد کرزئی کی حکومت کی صف میں کھڑی نظر آتی ہے ۔

لہٰذا وقت آ گیا ہے کہ اب پاکستان کو اپنا سیاسی کیس عالمی عدالت میں لے جانا چاہئے اور بتانا چاہئے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں بڑا کردار ادا کرنے والا پاکستان آج دہشت گردی کی زد میں ہے لہٰذا وہ اس حوالہ سے افغانستان اور بھارت کے کردار کا جائزہ لیں اور ان سے جواب طلبی کی جائے بلوچستان کے حوالہ سے بھارت کے عزائم بھی ڈھکے چھپے نہیں رہے خود بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کے بلوچستان کے حوالہ سے بیانات ریکارڈ کا حصہ ہیں ،ٹرمپ کی جانب سے اپنی کانگرس کے اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار کو سراہنا اور شریف اللہ جیسے دہشت گرد کے پکڑنے میں پاکستان کی کوشش کو سراہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ آج بھی دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی افواج کے کردار کا معترف ہے اور آنے والے حالات میں دہشت گردی کے سدباب میں پھر سے امریکہ پاکستان کے درمیان کوارڈینیشن ہو سکتی ہے ۔پاکستان کو درپیش دہشت گردی کے علاقائی محرکات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اس کے لئے عالمی اور علاقائی محاذ پر آواز اٹھانا ہوگی اس سلسلہ میں حکومتی سطح پر سنجیدہ اور مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے دہشت گردی کا جن قابو سے باہر ہوتا نظر آ رہا ہے اسے قابو پانے کے لئے جہاں ہماری عسکری طاقت کی اپنی اہمیت ہے تو وہاں اس کے خلاف قومی ہم آہنگی اور یکجہتی و اتحاد کا بند باندھنا لازم ہے اور یہ وہ طاقت ہے جس کا توڑ دشمن کے پاس نہیں ہوگا حکومت نے منگل کے روز قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس تو بلایا ہے سوال اس حوالہ سے اجلاس نتیجہ خیز ہوگا؟ اور اہل سیاست کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ پاکستان کی بقا و سلامتی کے حوالہ سے وہ اپنا کردار کس طرح ادا کرتے ہیں انہیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ مسئلہ پاکستان کی بقا و سلامتی اور استحکام کا ہے اگر انہوں نے اس حوالہ سے اپنے مفادات کو قومی مفاد پر ترجیح دی تو اس امر کے حوالہ سے انہیں تاریخ میں جوابدہ ہونا پڑے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں