تنخواہوں میں اضافہ مہنگائی دیکھ کر کیا پارلیمنٹ ٹیکسز کے نفاذ کیلئے قانون سازی کرے ورنہ 500 ارب تک اضافی ٹیکس لگانا پڑیں گے : سب کچھ قرض سے کررہے ہیں : وزیر خزانہ

تنخواہوں میں اضافہ مہنگائی دیکھ کر کیا پارلیمنٹ ٹیکسز کے نفاذ کیلئے قانون سازی کرے ورنہ 500 ارب تک اضافی ٹیکس لگانا پڑیں گے : سب کچھ قرض سے کررہے ہیں : وزیر خزانہ

اسلام آباد(کامرس رپورٹر،اے پی پی، مانیٹرنگ ڈیسک،دنیا نیوز)وفاقی وزیر خزانہ اورنگزیب نے ٹیکسز کے نفاذ کے لیے قانون سازی نہ ہونے پر منی بجٹ لانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے پارلیمان سے ہماری یہی گزارش ہوگی کہ وہ ٹیکسز کے نفاذ کے لیے قانون سازی اور ترامیم کرے تاکہ ہمیں اضافی اقدامات نہ کرنا پڑیں، ٹیکسز کا نفاذ نہ کرسکے تو ہمیں 500 ارب روپے تک کے اضافی ٹیکسز لگانا پڑیں گے۔

رواں سال ہم نے انفورسمنٹ کے ذریعے 400 ارب سے زیادہ ٹیکس اکھٹا کیا، دو ہی طریقے ہیں یا تو انفورسمنٹ کرلیں یا ٹیکس لگادیں اس حوالے سے قانون سازی کے لیے دونوں ایوانوں سے بات کرینگے ۔ مالی گنجائش کے مطابق ہی ریلیف دے سکتے ہیں، سب کچھ قرض لیکر کررہے ہیں،تنخواہوں میں اضافہ مہنگائی دیکھ کر کیا اس سے خزانے پر 28 سے 30 ارب کا اضافی بوجھ پڑے گا، خواہش تھی تنخواہ دار طبقے کو جتنا  ریلیف دے سکتے ہیں دیدیں،7ہزار ٹیرف لائنز میں سے 4ہزار پر اضافی کسٹم ڈیوٹی صفر کردی جس سے برآمدات میں اضافہ ہوگا ، بجلی بلوں پر10فیصد سرچارج نہیں لگایا جا رہا ،چھوٹے گھروں کیلئے قرض سکیم جلد لا رہے ہیں ،حکومتی اخراجات میں اس سے زیادہ کمی ممکن نہیں،ہماری کوشش ہے مجموعی ٹیرف رجیم میں 4فیصد کمی لائی جائے ، 2 ٹریلین کے اضافی ٹیکس اقدامات میں 312ارب کے نئے ٹیکس ہیں ، 2 ٹریلین کے اضافی اہداف کا زیادہ تر حصہ خودمختار نمو اور انفورسمنٹ کے اقدامات سے حاصل کیا جائے گا، 9.4ٹریلین کی غیردستاویزی معیشت کو دستاویزی بنانا ضروری ہے ، ستمبر میں یورو بانڈز سے 500 ملین ڈالر پاکستان کو وصول ہو جائینگے ۔ بدھ کو سیکرٹری خزانہ امداد اﷲبوسال ، چیئرمین ایف بی آر راشد محمودلنگڑیال اور حکومت کی معاشی ٹیم کے دیگراراکین کے ہمراہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا وفاقی بجٹ میں ٹیرف اصلاحات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے جسکی بڑی اہمیت ہے ، پہلا مقصد پروٹیکٹڈ رجیم کوتبدیل کرنا ہے تاکہ کیش اور انسانی وسائل میں بہتری آئے ۔ اس سے برآمدی شعبے کو بھی فائدہ پہنچے گا۔

ڈھانچہ جاتی بنیادوں پر ملک کوآگے لے جانے کیلئے معیشت کے بنیادی ڈی این اے کو تبدیل کرنا ضروری ہے ۔ 7ہزار ٹیرف لائن میں سے 4ہزار پر اضافی کسٹم ڈیوٹی صفر کردی گئی ہے ،2700شعبوں میں کسٹم ڈیوٹی کی شرح کم کردی گئی اسی طرح 2ہزار ایسے ٹیرف لائن ہیں جن کا تعلق خام مال سے ہے اور اس سے برآمدی صنعت کو یقینی طور پر فائدہ پہنچے گا، ٹیرف اصلاحات کا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور ہماری کوشش ہے مجموعی طور پر ٹیرف رجیم میں 4فیصد کمی لائی جائے ۔ وزیر خزانہ نے کہا وزیراعظم اور انکی کوشش تھی تنخواہ دار طبقے کو جتنا ریلیف دیا جاسکے وہ دیا جائے تاہم اس میں ہم اپنی مالی گنجائش کے مطابق جاسکتے ہیں ، اسی طرح درمیانے درجے کے کارپوریٹ شعبے کیلئے سپر ٹیکس میں 0.5فیصد کی کمی کی گئی ہے ۔ تعمیراتی شعبے میں ٹیکس کم نہیں ہوا بلکہ کوشش کی گئی ہے ٹرانزیکشن کی لاگت اور اخراجات میں کمی لائی جائے ، 5 مرلہ گھر بنانے والوں کومارگیج فنانسنگ میں سہولیات فراہم کررہے ہیں ، اس ضمن میں سٹیٹ بنک سے بات چیت جاری ہے ،آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے امور کے مطابق کھادوں اور کیڑے مار ادویا ت پر اضافی ٹیکس عائد کرنا تھا جسکا مقصد استثنائی رجیم کا خاتمہ ہے ۔وزیراعظم کی ہدایت پر گزشتہ سال ہماری آئی ایم ایف سے بات چیت ہوئی کہ یہ ٹیکس نہ لگائے جائیں ، یہ درست سمت میں قدم ہے ۔ انہوں نے کہا ٹیکس کی تعمیل اور اصلاحات کا عمل آگے بڑھ رہا ہے ، اس سال جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح 10.3فیصد رہی جو آئندہ مالی سال میں 10.9فیصد ہوجائے گی۔ 2 ٹریلین کے اضافی ٹیکس اقدامات میں 312ارب کے نئے ٹیکس ہیں، 2 ٹریلین کے اضافی اہداف کا زیادہ تر حصہ خودمختار نمو اور انفورسمنٹ اقدامات سے حاصل کیا جائے گا اس حوالے سے ہم قانون سازی کی طرف جائیں گے اور دونوں ایوانوں کو اعتماد میں لیں گے ۔

اگرانفورسمنٹ کے اقدامات نہیں ہونگے تو ہمیں 400 سے 500 ارب تک کے ٹیکس لگانا پڑیں گے ۔ تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کاتعلق افراط زر (مہنگائی)سے ہے ۔ پنشن اصلاحات کا عمل جاری ہے ۔ حکومت نے پنشن کو افراط زر سے منسلک کردیا ہے ۔ انہوں نے کہا زراعت معیشت کا انجن ہے ، زرعی جی ڈی پی میں ڈیری اور لائیو سٹاک کا حصہ 60فیصد کے قریب ہے ، سٹوریج سہولیات ، فنانسنگ میں اضافہ اور چھوٹے کسانو ں کو قرضے دیئے جائینگے ، اس حوالے سے صوبوں کے ساتھ ملکر کام کریں گے جوشعبے صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں وفاقی حکومت ان میں بھرپورمعاونت فراہم کرے گی۔ تنخواہوں اور پنشن کے حوالے سے بنچ مارک ہونا چاہئے ، پوری دنیا میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ ہوتا ہے ، حکومت نے ٹیکسوں میں زیادہ اضافہ نہیں کیا ، اسکے برعکس کفایت شعاری اوراخراجات میں کمی کی گئی ہے ، اس سال حکومتی اخراجات میں 1.9فیصد کا معمولی اضافہ ہوا ، حکومت سبسڈیزکو ختم کررہی ہے جبکہ قرضوں کے انتظام کو بھی بہتر بنایا جارہا ہے ، وفاقی حکومت کے اخراجات میں کمی ہماری ترجیح ہے ، اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا ہے کیونکہ جتنی بھی سہولیات عوام کو فراہم کی جارہی ہیں وہ قرضے لے کر دی جارہی ہیں ۔وزیر خزانہ نے کہا معیشت کو دستاویزی بنانا وقت کی ضرورت ہے ، اس وقت غیردستاویزی معیشت کا حجم 9.4ٹریلین ہے ۔ بجلی بلوں پر10فیصد سرچارج عائد نہیں کیا گیا ۔ 63 فیصد نوجوانوں کیلئے حکومت نے ترجیحی بنیادوں پر آئندہ بجٹ میں اقدامات اٹھائے ہیں جسکے دور رس نتائج سامنے آئیں گے اور رواں سال پاکستانی یوتھ نے فری لانسنگ کے ذریعے 400 ملین ڈالر کمائے اور اس کو بہتر بنانے کیلئے مزید اقدامات کر رہے ہیں۔

اس سال ٹیکسز کے مقابلے میں جی ڈی پی کی شرح 10.3فیصد ہے جو اگلے سال 10.9 فیصد ہوگی، 22 کھرب کی جو بات کی گئی ہے اس میں سے اضافی ٹیکسز صرف 312 ارب ہیں، اس بارے میں سوچیں کہ 22 کھرب میں صرف 312 ارب کے اضافی ٹیکسز ہیں اور باقی خود کار نمو اور نفاذ کا پہلو ہے ۔وزیر خزانہ نے کہاٹیکسز کے نفاذ کے لیے قانون میں ترمیم کرینگے کیونکہ اگر ٹیکسز کا نفاذ نہیں کرسکے تو ہمیں 400 سے 500 ارب کے اضافی اقدامات کرنا پڑیں گے ۔ پارلیمان سے گزارش ہوگی کہ وہ ٹیکسز کے نفاذ کیلئے قانون سازی اور ترامیم مہیا کریں تاکہ ہمیں اضافی اقدامات نہ کرنا پڑیں اور نظام میں لیکیج کو روکا جاسکے ۔پاور سیکٹر میں ریکوریز بہتر ہوئی ہیں، اب ٹرانسمیشن نقصانات کو کم کرنے پر کام ہو رہا ہے ۔ ضم شدہ اضلاع میں سیلز ٹیکس کا اطلاق مرحلہ وار ہو گا ، پہلے مرحلے میں 10 فیصد کی کم شرح سے اسکا اطلاق کر دیا گیا ہے ۔ وزیر خزانہ نے کہا چیئرمین ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، سپیکر ، ڈپٹی سپیکر کی تنخواہیں بڑھا کر ساڑھے 21لاکھ ماہانہ کردی گئی ہیں،وزرا اور ارکان اسمبلی کی تنخواہیں 9 سال بعد بڑھیں اسلئے زیادہ لگ رہی ہیں ۔ ایک سوال پروزیر خزانہ نے کہا یہ ضرور دیکھ لیں وزرا اور پارلیمنٹیرینز کی سیلری کو کب ایڈجسٹ کیا گیا تھا، 2016 میں وزرا کی تنخواہ بڑھائی گئی تھی اگر ہر سال تنخواہ بڑھتی رہتی تو ایک دم بڑھنے والی بات نہ ہوتی۔ایک دم والی بات اس وقت ہوتی ہے جب 9 سال سے کوئی چیز نہ ہوئی ہو اسلئے تنخواہوں میں اضافہ زیادہ نظر آرہا ہے۔

کم از کم تنخواہ میں اضافہ نہ کرنے سے متعلق سوال پر وزیر خزانہ کا کہنا تھا حکومت نے کم سے کم اجرات کو نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے ، کم سے کم اجرت کو موجودہ سطح پر برقرار رکھا جائے گا، وزیرخزانہ نے صحافی کو تاجر تنظیموں کے پاس جاکر رائے لینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا میرے خیال سے ہم اس وقت درست مقام پر ہیں۔سیکرٹری خزانہ نے کہا جاری مالی سال میں اخراجات کے رجحان کو دیکھا جائے تو حکومت نے حتی المقدور کوشش کی ہے کہ اخراجات پر قابو پایا جائے ،تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے سے خزانے پر 28 سے 30 ارب کا اضافی بوجھ پڑے گا ۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا لوکل سولر پر 18 فیصد ٹیکس تھا اور جو امپورٹ ہو رہے تھے اس پر ٹیکس زیرو تھا تو لوکل سولر انڈسٹری کی طرف سے یہ مطالبہ تھا کہ امپورٹ سولر پر بھی یکساں ٹیکس نافذ کیا جائے تا کہ تفریق ختم ہو سکے ۔انہوں نے کہا کافی سمیت چار درآمدی اشیا کو تیسرے شیڈول میں اسلئے شامل کیا گیا ہے تاکہ ڈکلیئر قیمت اور مارکیٹ قیمت میں فرق کی نگرانی کی جاسکے ۔ آن لائن خریداری پر سیلز ٹیکس نفاذ پر چیئرمین ایف بی آر نے کہا فارمل ریٹیل سیکٹر اور آن لائن سیکٹر کے درمیان لیول پلیئنگ فیلڈ پیدا کرنے کے لیے آن لائن خریداری پر 18 فیصد سیلڑ ٹیکس نافذ کیا گیا ہے کیونکہ فارمل ریٹیل سیکٹر کے لوگ ہزاروں مرتبہ ہمارے پاس آئے کہ 18 فیصد سیلز ٹیکس سے مارکیٹ ہاتھ سے نکل رہی ہے ، اگر ہم 18 فیصد کا فرق پیدا کرینگے تو لیول پلیئنگ فیلڈ ختم کرینگے ، لیول پلیئنگ فیلڈ کو بحال کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں