تصویر یا ویڈیو کو سائیلنٹ وٹنس تھیوری بطور شہادت قبول کیا جاسکتا : سپریم کورٹ

تصویر یا ویڈیو کو سائیلنٹ وٹنس تھیوری بطور شہادت قبول کیا جاسکتا : سپریم کورٹ

اسلام آباد(آن لائن)سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، جس میں ڈیجیٹل شواہد کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر کسی فوٹیج کو درست طریقے سے تصدیق شدہ قرار دیا جائے تو وہ سائلنٹ وِٹنس تھیوری (خاموش گواہ اصول) کے تحت بنیادی شہادت کے طور پر قابلِ قبول ہو سکتی ہے۔۔۔

 صرف حالات و واقعات کی بنیاد پر سزا دینا قانوناً ممنوع نہیں لیکن ایسے شواہد ملزم کی بیگناہی سے   مطابقت نہیں رکھنے چاہئیں اور ان شواہد کی ایک مکمل اور بغیر کسی وقفے کی کڑی سے ملزم کا جرم سے تعلق ثابت ہونا چاہیے، جسٹس محمد ہاشم کاکڑ نے 13 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا ہے کہ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں میں اس قدر شامل ہو چکی ہے کہ ہر کوئی کسی نہ کسی شکل میں اسے استعمال کر رہا ہے ،جسٹس محمد ہاشم کاکڑ نے اس 3 رکنی بینچ کی سربراہی کی جس نے 20 مئی کو ظاہر ذاکر جعفر کی سزائے موت کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی اپیل مسترد کر دی تھی، فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ مجرم عدالت میں ایک مایوس شخص کے طور پر سامنے آیا، جس پر بینچ کے کسی بھی رکن کو کوئی ہمدردی محسوس نہیں ہوئی، تاہم بینچ کے رکن جسٹس علی باقر نجفی نے کہا وہ جلد ہی اپنا اضافی نوٹ جاری کریں گے ۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہاپچھلے 25 سالوں میں تقریباً تمام ممالک میں سائلنٹ وٹنس تھیوری (خاموش گواہ کا اصول) کو اپنایا گیا ہے، اس اصول کے تحت، اگر کسی تصویر یا ویڈیو کو اس طریقہ کار یا نظام کی درستگی سے ثابت کیا جا سکے جس کے ذریعے وہ بنائی گئی ہے تو پھر وہ خود بخود ایک گواہ کے طور پر تسلیم کی جا سکتی ہے اور اس کے لیے کسی عینی شاہد کی گواہی درکار نہیں ہوتی کہ اس نے وہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔

عدالت نے تسلیم کیا کہ کافی عرصے تک ملکی عدالتیں ڈیجیٹل شواہد کو بروئے کار نہ لا سکیں کیونکہ انہیں صرف سنی سنائی باتوں کے زمرے میں شمار کیا جاتا تھا حالانکہ یہ شواہد صرف قانونِ شہادت 1984 کے آرٹیکل 164 کے تحت قابلِ قبول تھے ،عدالت نے مزید وضاحت کی کہ یہ بات عام طور پر تسلیم شدہ ہے کہ سزا محض حالات و واقعاتی شواہد کی بنیاد پر بھی دی جا سکتی ہے ، بشرطیکہ وہ سخت اصولوں اور معیارات پر پورا اترے ،سپریم کورٹ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ درخواست گزار (ملزم)نے یہ وضاحت پیش نہیں کی کہ مقتولہ اس کے گھر پر کیوں موجود تھی اور اس کی لاش اسی جگہ سے کیوں برآمد ہوئی۔واضح رہے کہ نور مقدم 20 جولائی 2021 کو اسلام آباد میں ظاہر جعفر کی رہائش گاہ سے انتہائی بے دردی سے قتل شدہ حالت میں ملی تھیں، ظاہر جعفر کو مرکزی ملزم کے طور پر گرفتار کیا گیا اور 24 فروری 2022 کو ٹرائل کورٹ نے اسے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی۔ بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سزائے موت برقرار رکھتے ہوئے زیادتی کے جرم میں عمر قید کو بھی سزائے موت میں تبدیل کر دیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں