ٹرمپ کیلئے پاکستان کی نوبیل انعام کی سفارش کتنی حقیقت پسندانہ
تجزیہ: سلمان غنی حکومت اور ریاست پاکستان کی جانب سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کے عمل میں امریکی صدر ٹرمپ کے مثبت اور بروقت کردار کو سراہتے ہوئے ان کیلئے امن کے نوبیل پرائز دینے کی سفارش کو موجودہ حالات میں ایک حقیقت پسندانہ عمل قرار دیا جاسکتا ہے۔
اسلئے کہ پہلگام واقعہ کے بعد بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف اختیار کئے جانے والے طرز عمل اور الزام تراشی نے حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ کا یہ عمل کشیدگی اور بعدازاں ان جوہری طاقتوں کے درمیان باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار کرگیا اور عالمی امن کیلئے بھی خطرات لاحق ہوگئے تھے ،ایسے میں صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ نے دونوں جوہری ممالک میں کشیدگی کے اس عمل کو روکتے ہوئے سیز فائر یقینی بنایا ہے جسے عالمی اور علاقائی سطح پر سراہا گیا ، پاکستان کی جانب سے صدر ٹرمپ کیلئے نوبیل پرائز کیلئے سفارش کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ، نوبیل پرائز کا فیصلہ اقوام متحدہ کے تحت ایک طے شدہ عمل کے ذریعے متعلقہ کمیٹی کے تحت ہوتا ہے اور متعلقہ کمیٹی کسی اور شعبہ میں کسی بھی شخص کی خدمات کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کی سفارش کرتی ہے ،پاکستان نے ناروے میں مقیم نوبیل انعام کمیٹی کو صدر ٹرمپ کے امن کیلئے کردار کو سراہتے ہوئے انہیں انعام دینے کی سفارش کی ہے ۔ اس سے قبل امن کی بنیاد پر ہی امریکی صدر اوباما کو یہ ایوارڈ ملا تھا۔ماضی میں بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مذکورہ ایوارڈ دینے کیلئے سفارشیں تھیں لیکن یہ ایوارڈ انہیں مل نہیں پایا تھا ،نوبیل ایوارڈ کیلئے کسی شخص کیلئے سفارشات کا سلسلہ یکم جنوری سے پہلے تک ہوتا ہے ۔
پاکستان کی جانب سے صدر ٹرمپ کی مذکورہ ایوارڈ کیلئے نامزدگی کی ٹائمنگ کو اہم قراردیا جا سکتا ہے کیونکہ ایران اسرائیل جنگ میں امریکی کردار اہم ہے ،امریکا اپنی ترجیحات میں اسرائیل کی بقاء کو اہمیت دیتا ہے ،جبکہ اسرائیل اب امریکی معاونت کا منتظر ہے اور امکانات یہی تھے کہ امریکا جب اسرائیل کی مدد کیلئے آئے گا تو جارحیت کا عمل ایران کو پسپائی پر مجبور کر دے گا لیکن ایک عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان اور خصوصاً فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی واشنگٹن میں امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد امریکا کی ایران کے خلاف عزائم میں نرمی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ چند روز قبل تک امریکی صدر ٹرمپ کے یہ اعلانات ریکارڈ پر ہیں جس میں ان کا کہنا تھا کہ ایرانی لیڈر خامنہ ای کا ہمیں معلوم ہے وہ ہمارے ٹارگٹ پر ہیں ،لیکن اب ایران کے خلاف امریکا نے اپنے اعلانات اور عزائم میں کچھ نرمی پیدا کی ہے اور اپنے حتمی فیصلہ کے حوالہ سے دو ہفتوں کے وقت کی بات کی ہے ۔صدر ٹرمپ کی قیادت سے پھر سے یہ توقعات ظاہر کی جارہی ہیں کہ وہ پاک بھارت کی طرح ایران اسرائیل میں بڑھتی کشیدگی میں فریق بننے کی بجائے مثبت کردار ادا کریں گے ۔یہ تاثر عام ہے کہ پاکستان بارے صدر ٹرمپ کا یہ کہنا کہ پاکستان ایران کو زیادہ سمجھتا ہے اور پاکستان ایران بارے کوئی بڑا کردار ادا کر سکتا ہے تو یہ کردار امن کے لئے ہوگا پاکستانی قطعی طور پر ایسے کسی عمل کا حصہ نہیں بنے گا جو خود پاکستان کیلئے مشکلات کا باعث بنے کیونکہ رجیم چینج کے کسی منصوبہ پر پیش رفت ہوگی تو ایران میں قائم ہونے والی اسرائیل دوست حکومت کل کو پاکستان اور بلوچستان کیلئے خطرناک بن سکتی ہے کیونکہ اس کی سرحد ایران کے ساتھ لگتی ہے لہٰذا پاکستان ایسی کسی صورتحال میں فریق نہیں بنے گا جس سے اس خطہ میں کوئی نئی صورتحال طاری ہو۔