27ویں ترمیم14نومبر تک منظور کرنیکا فیصلہ،وزرا،ارکان پارلیمنٹ کے غیر ملکی دورے منسوخ
سپیکر کی زیر صدارت ہاؤس بزنس کمیٹی کا اجلاس، ایجنڈے ، شیڈول کی منظوری ،پی ٹی آئی کی عدم شرکت ترمیم وفاق کیلئے خطرہ ،گوہر، اپوزیشن مفروضوں پر گفتگو کر رہی ،طارق فضل،پریشانی کی ضرورت نہیں،ایم کیو ایم
اسلام آباد(نامہ نگار،سٹاف رپورٹر،اپنے رپورٹرسے ،دنیا نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک،خبر ایجنسیاں)سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ہاؤس بزنس مشاورتی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔قومی اسمبلی ذرائع کے مطابق اجلاس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی جس میں 27 ویں آئینی ترمیم 14 نومبر تک منظور کرانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ذرائع نے بتایا کہ قومی اسمبلی اجلاس بھی 14 نومبر تک جاری رہے گا جب کہ اجلاس کے ایجنڈے اور شیڈول کی بھی منظوری دیدی گئی۔ذرائع کا کہنا تھا اجلاس میں تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر نے شرکت نہیں کی ۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اجلاس کے دوران ماحول کو خوشگوار رکھنے کی درخواست کی۔ذرائع کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم 14 نومبر تک دونوں ایوانوں سے منظور کروانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ کمیٹی میں طے پایا کہ 27ویں آئینی ترمیم پہلے سینیٹ سے پاس کی جائے گی، سینیٹ سے پاس ہونے کے بعد قومی اسمبلی سے پاس کروائی جائے گی۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق قومی اسمبلی کا موجودہ اجلاس 14 نومبر جمعہ تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیاگیاہے ۔
کمیٹی اجلاس میں ایجنڈے اور دورانیے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔اجلاس میں ڈپٹی سپیکر سید غلام مصطفی شاہ، وفاقی وزرا اعظم نذیر تارڑ ، ڈاکٹر طارق فضل چودھری ، خالد حسین مگسی ،ارکان اسمبلی سید نوید قمر، شیخ آفتاب احمد، اعجاز حسین جاکھرانی، سید حفیظ الدین، پولین بلوچ، نزہت صادق ، نور عالم خان، شہلا رضا ، شازیہ مری اور اعجازالحق نے شرکت کی۔ادھر وزیراعظم شہباز شریف نے 27 ویں ترمیم کے تناظر میں وزرا اور ارکان پارلیمنٹ کے غیر ملکی دورے منسوخ کر دیئے ۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے تمام وزرا اور ارکان پارلیمنٹ کو اسلام آباد میں رہنے کی ہدایت کی ہے ۔واضح رہے حکمران اتحاد کو قومی اسمبلی میں ترمیم کی منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت حاصل ہے ، حکومت کو 237 ارکان کی حمایت حاصل ہے جب کہ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے 224 ووٹ درکار ہیں۔ستائیسویں آئینی ترمیم کا مسودہ 7 نومبر کو سینیٹ اجلاس میں پیش کرنے کا امکان ہے ۔ حکومت نے سینیٹ میں جے یو آئی کے بغیر ہی تعداد پوری ہونے کا دعویٰ کردیا۔ 96 کے ایوان میں حکومت کو 65 ارکان کی حمایت ملنے کا قوی یقین ہے ۔حکومتی ذرائع کے مطابق اے این پی کے 3 سینیٹر کی حمایت ملنے کا امکان ہے ۔
آزاد سینیٹر نسیمہ احسان سے بھی حمایت کی یقین دہانی حاصل کرلی گئی۔این این آئی کے مطابق ستائیسویں آئینی ترمیم کا مسودہ 7 نومبر کو سینیٹ اجلاس میں پیش کیا جائے گا، ترمیم کی 10 نومبر کو منظوری متوقع ہے ۔ ایوان بالا میں اجلاس کی کارروائی چھٹی کے دن ہفتے کو بھی چلے گی ۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے مجوزہ ترمیم سے متعلق اتحادیوں کو خود اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔مجوزہ آئینی ترمیم پر جمعہ اور ہفتہ کو سینیٹ بحث کرائی جائے گی۔دریں اثنا بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن ارکان کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان نے ستائیسویں آئینی ترمیم پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا وفاق صوبوں پر حملہ آور ہونے لگا ہے ، وفاق کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اکائیوں کو مضبوط کرے نہ کہ کمزور۔ترمیم کا کوئی آئینی اور قانونی جواز نہیں، دنیا میں جب بھی آئین میں تبدیلی ہوتی ہے تو اتفاقِ رائے سے ہوتی ہے ۔ آپ پورے وفاق کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، نیشنل فنانس ایوارڈ ایک حساس معاملہ ہے جسے آج تک کسی نے نہیں چھیڑا مگر اب اسے بھی متنازعہ بنایا جا رہا ہے ۔بیرسٹر گوہر نے کہا پنجاب حکومت کی جانب سے گندم کی ترسیل پر پابندی آرٹیکل 151 کی خلاف ورزی ہے ۔
خیبرپختونخوا کو سالانہ 5.3 ملین ٹن گندم کی ضرورت ہے لیکن وفاقی اکائیوں کے درمیان تعاون کے بجائے رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا خیبرپختونخوا میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی ہمارا اختیار ہے اور ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں موجودہ وزیر اعلیٰ ٰکو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت دی جائے ۔ انہوں نے کہا آئین میں ترمیم سنجیدہ معاملہ ہے ، بھارت کے آئین میں اب تک 106 ترامیم ہوئی ہیں۔قوم کی ضرورت کے مطابق ترمیم ہوتی ہے ، 18 ہویں ترمیم متفقہ طور پر منظور کی گئی تھی جس پر لوگوں نے خوشیاں منائیں ، 26 ویں ترمیم کی 4 شقوں پر ہمیں شدید اعتراض ہے ۔ انہوں نے کہا 27 ویں ترمیم وفاق کے لیے خطرہ ہے ، صوبے انتظار کر رہے ہیں 11واں این ایف سی ایوارڈ کب آئے گا۔ ہم احتجاج کے طور پر اپنی آواز ایوان میں اٹھائیں گے ، قوم تقسیم ہوچکی ہے ، خسارہ ٹاپ پر ہے ، حکومت ہوش کے ناخن لے ۔انہوں نے کہا آئین میں ترمیم اس ایوان کا حق ہے مگر ان لوگوں کا حق ہے جو مینڈیٹ لے کر آئے ہیں، آپ کے پاس تو مینڈیٹ ہی نہیں تھا۔بیرسٹر گوہر نے کہا ستائیسویں آئینی ترمیم آئین کی روح کے خلاف ہے ، اس سے قوم کو مزید تقسیم نہ کیا جائے ۔ جواب میں وفاقی وزیر ڈاکٹر طارق فضل چودھری نے کہا ستائیسویں آئینی ترمیم کا ڈاکومنٹ ابھی تک ایوان میں پیش نہیں کیا گیا، اپوزیشن مفروضوں پر گفتگو کر رہی ہے ۔
آئین میں ترمیم صرف دو تہائی اکثریت سے ہو سکتی ہے اور یہ تاثر غلط ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کو رول بیک کیا جا رہا ہے ۔انہوں نے کہا چھبیسویں ترمیم کے وقت بھی یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ عدلیہ پر حملہ ہو رہا ہے ۔انہوں نے کہا 27ویں ترمیم کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی مذمت کرتا ہوں،آئینی ترمیم ایوان میں پیش کی جاتی تو بہتر ہوتا اس پر بات ہوتی،کیا پاکستان میں یکساں نظام تعلیم کی ضرورت نہیں ، آبادی اس وقت بہت بڑا چیلنج ہے ، این ایف سی پر بھی مشاورت سے بات ہوگی، پی ٹی آئی ، آئے اور کمیٹیوں میں کردار ادا کرے ۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)پاکستان نے کہا ہے کسی کو 27ویں آئینی ترمیم پر حیران اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ایم کیو ایم کے سربراہ خالد مقبول صدیقی اور ڈاکٹر فاروق ستار کا دیگر رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا ستائیسویں آئینی ترمیم گڈگورننس اور بہتر ہم آہنگی سے متعلق ہے ۔اُنہوں نے کہا ہم پہلے سے کہہ رہے ہیں جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچنے چاہئیں، ترمیم کے معاملے پر ہم نے خود وزیراعظم سے رابطہ کیا، بلدیاتی حکومت کو بھی آئین کے تحت حکومت سمجھا جائے ، آئین لوکل حکومت کا تحفظ کرے اور سپریم کورٹ اس کی نگرانی کرے ، آئینی ترمیم کے معاملے پر کئی روز سے لوگ رابطے کررہے ہیں۔ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا آئین میں لکھا جائے کہ مقامی حکومتوں کی مدت پوری ہونے کے بعد نئے انتخابات ہوں گے ،آئین میں وقت کے ساتھ ترامیم ہونی چاہئیں جو ضروری ہیں، کسی کو 27ویں آئینی ترمیم پر حیرانی اور پریشانی نہیں ہونی چاہئے ۔