مجید امجد اداس لمحوں، اداس شاموں کا شاعر

تحریر : پروفیسرصابر علی


تعارف: اپنی شاعری سے اْردو نظم کو نیا آہنگ بخشنے والے مجید امجد29 جون1914ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے،اصل نام عبدالمجید تھا۔ پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد شعبہ صحافت سے کریئر کا آغاز کیا، بعد ازاں سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔1934ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کیا۔

کسب معاش کا مسئلہ پیش آیا تو رائے دہندگان کی فہرستیں بنانے کا کام ملا۔ یہ کام عارضی تھا جو چند مہینوں میں مکمل ہوگیا۔ اس کے بعد وہ ایک انشورنس کمپنی کے ایجنٹ بن گئے۔ 1935ء میں رسالہ ’’عروج‘‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اورکافی عرصہ اس سے منسلک رہے۔ 1949ء میں محکمہ خوارک میں ملازم ہوگئے۔ 1972ء میں اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر ساہیوال کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ان کی ازدوا جی زندگی خوشگوار نہ تھی۔ ان کی بیوی ان سے طلاق لیے بغیر ان سے الگ رہنے لگیں۔ بڑی تنگ دستی سے گزر اوقات ہوتی تھی۔ ان کے بعض دوستوں کے توجہ دلانے پر حکومت پاکستان نے مارچ1974ء میں ان کا پانچ سو روپیہ ماہانہ ادبی وظیفہ مقرر کردیا تھا۔ 

مجید امجد کو شعروسخن سے فطری لگا ؤ تھا۔ غزل کی نسبت نظم سے زیادہ شغف تھا۔ مجید امجد کا شمار اردو کے اہم نظم گو شعرا میں ہوتا ہے اور ان کی شاعری میں موضوعات کا بڑا تنوع پایا جاتا ہے۔ان کی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہوئے جن میں ’’شب رفتہ‘‘، ’’شب رفتہ کے بعد‘‘، ’’ چراغ طاق جہاں‘‘، ’’طاق ابد ‘‘اور ’’مرے خدا مرے دل‘‘ شامل ہیں۔ ’’کلیات مجید امجد‘‘ بھی شائع ہوئی۔ ان کی کلیات ’’لوح دل‘‘ کے نام سے بھی چھپی ہے۔  11مئی1974ء کو ساہیوال میں انتقال ہوا اور 12مئی کو جھنگ میں دفن ہوئے۔ ان کے انتقال کے بعد ساہیوال کے مشہور باغ ’’کنعاں پارک‘‘ اور ’’ساہیوال ہال‘‘ کا نام بدل کر علی الترتیب ’’امجد پارک‘‘ اور ’’امجد ہال‘‘ رکھ دیا گیا۔ 

 

مجید امجد کے بقول ’’ماضی کی راکھ سے میں نے جن بجھتی چنگاریوں کو چنا ہے ان کے ہاتھوں پر ان شب و روز کے نقش قدم ہیں جو اس کائنات اور اس کے حسنِ پر اسرار کے دھیان میں کٹ گئے ہیں۔ میری داستانِ عجز یہی نظمیں ہیں۔ فکر خود سوز سے لتھڑے ہوئے یہی چند اوراق ہیں۔ سب سے بڑھ کر خلش اس بات کی ہے کہ یہ بیان نامکمل، یہ اظہار ناتمام جس کی بنیاد محض تسکین ذوق تھی، فن کی ان بلندیوں کو نہ پہنچ سکا جو میرا مقصود ِنظر تھیں‘‘۔

’’شب رفتہ (وہ’’شب رفتہ‘‘ جو 1958ء میں نیا ادارہ لاہور کی طرف سے شائع ہوئی اور جس کے صفحات و سرورق کی آرائش و زیبائش جناب حنیف رامے نے کی) کے سرورق پر اپنی شاعری کے بارے میں خود مجید امجد کے یہ الفاظ اس کے فکر و فن اور شخصیت و شاعری کے سجنے اور پرکھنے میں بڑی حد تک ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔

مجید امجد کی شاعری کے مطالعے سے سب سے پہلی بات ہم پر روشن ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے ہاں کسی قسم کی نعرے بازی، فلسفہ طرازی آرائش سازی نہیں۔ کسی صبح نو یا سرخ سویرے کا پیغام نہیں۔ کوئی ایسا مادی، مقصدی، ترقی پسندانہ، یا اشتراکی پروگرام نہیں جو ہمیں اس کے دیگر ہم عصر شعراء میں اکثر کے ہاں کم و بیش ملتا ہے۔ کسی قسم کی تعمیر، انسانیت اصلاح معاشرہ اور مزدوروں اور محنت کشوں کی فلاح و بہبود کا کوئی’’ٹھوس‘‘ تعمیری اور محنت مندانہ، درس نہیں۔ لیکن کیا نعرہ لگانا، پیغام پہچانا، فلسفہ بتانا یا درس دینا شاعر کافرض ہے؟ یا شاعری کا جزو لانیفک ہے؟ہرگز نہیں! شاعری کے بنیادی تقاضے جمالیاتی اور فنی نوعیت کے ہیں، معاشرتی اصلاحی، رفاہی یا فلسفیانہ نوعیت کے نہیں۔ 

ایک شاعر کا بنیادی فریضہ تخلیق حسن کے ذریعے سے ابلاغ مسرت کرنا ہے۔ دیہات سدھارنا، محنت کشوں کی منصوبہ بندی کرنا، اور گمراہ لوگوں کے اخلاق و عادات سنوارنا، نہیں۔ ان کاموں کیلئے اخلاقیات، فلسفہ، نفسیات سیاست، عمرانیات اور قانون وغیرہ کے شعبے موجود ہیں۔ ہاں البتہ اگر کوئی شعر و ادب اساسی جمالیاتی اور فنی تقاضوں کے ساتھ ساتھ ثانوی طور پر ہمارے اخلاقی اور معاشرتی تقاضے بھی پورے کرتا ہے تو یہ ایک مستحسن بات ہے۔ مسدس حالی میں ایک اصلاحی تعمیری مقصدیت ہے اور بالکل یہی مقصدیت اقبالؒ کی شاعری میں بھی ہے۔ یہ بات محض تقابلی جائزے کیلئے ضروری تھی۔ مقصد صرف یہ ہے کہ مجید امجد کی شاعری اگرچہ کوئی پیغام، کوئی فلسفہ اور کوئی آدرش نہیں پیش کرتی لیکن وہ فن کے وہ تمام جمالیاتی اور فنی تقاضے پورے کرتی ہے جو فن کو قیام و دوام بخشنے کیلئے ضروری ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہی کسی مخصوص پیغام فلسفے یا آدرش کی کمی ہی مجید امجد کی شاعری کو آفاقیت اور عالمگیریت عطا کرتی ہے۔

اس لئے مجید امجد انسان کے ازلی اور آفاقی دکھوں کا شاعرہے۔ وہ دکھ جو بلا تفریق مذہب و ملت و رنگ و نسل ہر جگہ محسوس کئے جاتے ہیں۔ مجید امجد گزری رُتوں، ڈھلتی شاموں اور اداس راتوں کا شاعر ہے۔ وہ بچھڑے دنوں، پرانی برساتوں، ادھوری ملاقاتوں اور دلوں اور تنہا چاندنیوں کا شاعر ہے۔ اگر ایک جملے میں کہا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ زوال اضمحال اور تنہائی کا جان لیوا احساس مجید امجد کی شاعری کا بنیادی اور مرکزی نقطہ ہے۔ اپنا زوال، کائنات کا زوال، ہر چیز کا زوال، مجید امجد کا احساس زوال و اضمحال و تنہائی کبھی اس کی اپنی ذاتی محرومیوں، ناکامیوں اور نامرادیوں سے جنم لیتا ہے اور کبھی عالم اشیاء کی مجموعی بے ثباتی و ناپائیداری اور زندگی کی مجموعی بے حاصلی و بے مصرفی کے تصور سے پیدا ہوتا ہے۔انسان دوستی اور خدمت خلق کے سارے فلسفے تسلیم لیکن ہمیں یہ فراخ دلی سے تسلیم کر لینا چاہئے کہ ہم جس حدت و شدت سے اپنے ذاتی دکھوں کو محسوس کرتے ہیں اتنا دوسروں کے دکھوں کو نہیں کر سکتے ۔ہم اگر دوسروں کے دکھوں کو محسوس کرتے بھی ہیں تو اپنے دکھوں کے حوالے سے مجید امجد بَن چڑیا کو دیکھتا ہے۔ تنہائی و ویرانی کے اعتبار سے وہ اسے بالکل اپنی ہی مثال معلوم ہوتی ہے۔وہ بھی شاعر کی طرح اپنی تنہا ویران اور اجاڑ دنیا میں محو ترنم ہے۔ اس کا گیت ذات کی ازلی و ابدی تنہائی کا گیت ہے۔

صبح سویرے بن کر چڑیا من کی بات بتائے

جنگل میں سرکنڈوں کی کونپل پر بیٹھی گائے!

ننھی چونچ پہ چوں چرچوں چرچوں کی چونچلی باتوںٖ

کرن کرن پر ناچ رہی ہے اس کے من کی کہانی

کیا گاتی ہے کیا کہتی ہے کون اس بھید کو پائے

جانے دور کے کس ان دیکھے دیس کی بولی بولے

کون سنے ہاں کون سنے راگ اس کے راگ البیلے

سب کے سب بہرے ہیں میدان وادی دریا ٹیلے

کیٹس کا خیال ہے کہ شاعر کی اپنی کوئی شخصیت نہیں ہوتی۔ وہ اپنے تخیل کی مدد سے جس چیز کا روپ چاہے دھار لیتا ہے اور وہی کچھ محسوس کرنے لگتا ہے جو وہ چیز محسوس کرتی ہے۔ وہ اس چیز Nagative Capability(منفی یا انفعالی صلاحیت) کہتا ہے۔ شاعر بن کی چڑیا کو دیکھتا ہے اور اک لمحے کیلئے خود بن کر چڑیا بن جاتا ہے۔ اس کی روح قلب ماہئیت کے تصوراتی عمل کے ذریعے چڑیا میں حلول گزرتی ہے اور وہ چڑیا کی تنہائی کا دکھ محسوس کر لیتا ہے۔ یہی اعلیٰ قسم کی شاعرانہ، و فنکارانہ پہلو ہے جو اس کے دیگر ہم عصر شعراء میں اسے ممتاز کرتی ہے۔

اپنی اسی صلاحیت کی بناء پر مجید امجد ’’بوڑھے پنواڑی‘‘ کے انجانے دکھ کو محسوس کرتا ہے اسی سے وہ انسان کی فنا و بے بضاعتی اور کائنات کے بے رحم تسلسل و تواتر کے مقابلے میں انسان کی بے چارگی و بے بسی کا راز معلوم کرتا ہے۔ میرے خیال میں اردو شاعری میں مجید امجد کی نظم ’’پنواڑی‘‘ سے بہتر نظمیں بہت کم ہیں۔ یہ نظم جو بھرپور، مکمل، ٹھوس اور دیرپا تاثر چھوڑتی ہے وہ ہمیں جدید نظموں میں بہت کم نظر آتا ہے۔

مجید امجد اپنے مشاہدوں میں آنے والی تصویروں کو علامتوں میں منتقل کرنے کے ہنر سے بخوبی آگاہ تھے۔اس حوالے سے شب رفتہ کی متعدد نظمیں علامتی ذائقوں سے مملو ہیں۔ان کی نظم کنواں ’’شب رفتہ‘‘ کی بہترین نظموں میں سے ایک ہے۔ اس میں کنوئیں کی علامت کے حوالے سے دنیا کے معاملات و امور کی کروٹوں کا بڑے تجزیاتی انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔ نظم کا کینوس کنوئیں تک محدود نہیں رہتابلکہ تمام تر معاشرتی زندگی کو اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ کنواں زندگی کی علامت بنتا ہے جو ازل سے جاری و ساری ہے اور ابد تک جاری و ساری رہے گی۔ امجد زندگی کو امکانات کا ہیر پھیر کہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انسان کسی بھی لمحے نئے اور عجیب منظروں کے رُو بہ رُو کھڑا ہو سکتا ہے۔ ’’طلوعِ فرض‘‘ معاشرے میں زندگی کے کاروبار کی تفصیل پیش کرتی ہے۔ اس میں معاشرتی طبقے اجاگر ہوتے ہیں۔ شہر کی میکانکی زندگی سے اکتاہٹ اور کرب کا اظہار ملتا ہے۔ امجد کی نظمیں زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات اور مسائل سے مرتب ہوتی ہیں۔

ایک اور اہم بات ہے مجید امجد کی شاعری کی یہ ہے کہ اس کا ڈکشن (شعری ذخیرہ الفاظ) مستعار و مسروقہ نہیں بلکہ اس کا خود پیدا کردہ ہے۔ اس میں اس نے کسی شخص کی روح عصر کی کو رانہ تقلید نہیں کی بلکہ یہ ذخیرہ اس کی اپنی سالہا سال کی ریاضت) مشق سخن، مگن اور ذوق سلیم کا نتیجہ ہے۔ اس کے پاس، نرم، کومل، اجلے، چمکیلے صاف و شفاف سچے اور پراثر الفاظ کا ایک گرانقدر ذخیرہ موجود ہے۔

مجید امجد کے متعلق ایک اور بڑی اہم لیکن دقیق بات،(جس کی طرح شاید ایک عام ناقدیا ادبی قاری کی نظر نہ جائے) یہ ہے کہ اس کے ہاں خالص عشق و محبت کی شاعری بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ رومانی، جسمانی جنسی یا رومانی اور افلاطونی محبت کا عنصر اس کی شاعری میں ہمیں خال خال ہی نظر آتا ہے۔ کیا اس نے زندگی میں کبھی محبت کی؟ اس نے شادی کے چند ہی ماہ بعد اپنی شریک حیات سے علیحدگی کیوں اختیار کی؟ ساری زندگی ساہیوال کے ایک اجڑے پجڑے ہوئے ویران اور فرسودہ مکان میں کیوں تنہا گزاری۔ وہ محروم بیزار، کم آمیز، کم لوگو اور خلوت پسند کیوں تھا؟ یہ سب سوالات اس کی شاعری سے زیادہ اس کی شخصیت سے متعلق ہیں اور فی الحال ہمارے پاس ان سوالات کا کوئی شافی اور کافی جواب موجود نہیں۔گیارہ مئی کو اسے ہم سے بچھڑے پچاس سال ہو جائیں گے مگر اس کی شاعری کا دامن صدیوں پہ محیط ہے۔

 

جو دن کبھی نہیں بیتا

جو دن کبھی نہیں بیتا وہ دن کب آئے گا 

انہی دنوں میں اس اک دن کو کون دیکھے گا 

اس ایک دن کو جو سورج کی راکھ میں غلطاں 

انہی دنوں کی تہوں میں ہے کون دیکھے گا 

اس ایک دن کو جو ہے عمر کے زوال کا دن 

انہیں دنوں میں نمویاب کون دیکھے گا 

یہ ایک سانس جھمیلوں بھری جگوں میں رچی 

اس اپنی سانس میں کون اپنا انت دیکھے گا 

اس اپنی مٹی میں جو کچھ امٹ ہے مٹی ہے 

جو دن ان آنکھوں نے دیکھا ہے کون دیکھے گا 

میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے 

میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا 

دو رویہ ساحل دیوار اور پس دیوار 

اک آئنوں کا سمندر ہے کون دیکھے گا 

ہزار چہرے خود آرا ہیں کون جھانکے گا 

مرے نہ ہونے کی ہونی کو کون دیکھے گا 

تڑخ کے گرد کی تہ سے اگر کہیں کچھ پھول 

کھلے بھی، کوئی تو دیکھے گا کون دیکھے گا 

 

کوئٹے تک

صدیوں سے راہ تکتی ہوئی گھاٹیوں میں تم

اک لمحہ آ کے ہنس گئے ، میں ڈھونڈتا پھرا

ان وادیوں میں برف کے چھینٹوں کے ساتھ ساتھ

ہر سو شرر برس گئے ، میں ڈھونڈتا پھرا

راتیں ترائیوں کی تہوں میں لڑھک گئیں

دن دلدلوں میں دھنس گئے ، میں ڈھونڈتا پھرا

راہیں دھوئیں سے بھر گئیں، میں منتظر رہا

قرنوں کے رخ جھلس گئے ، میں ڈھونڈتا پھرا

تم پھر نہ آ سکو گے ، بتانا تو تھا مجھے

تم دور جا کے بس گئے ، میں ڈھونڈتا پھرا

برس گیا بہ خرابات آرزو، ترا غم

قدح قدح تری یادیں، سبو سبو ترا غم

ترے خیال کے پہلو سے اٹھ کے جب دیکھا

مہک رہا تھا زمانے میں سو بہ سو ترا غم

غبارِ رنگ میں رس ڈھونڈتی کرن، تری دھن!

گرفتِ سنگ میں بل کھاتی آبجو، ترا غم

ندی پہ چاند کا پرتو، ترا نشانِ قدم

خطِ سحر پہ اندھیروں کا رقص، تو، ترا غم

ہیں جس کی رو میں شگوفے ، وہ فصلِ سم، ترا دھیان

ہے جس کے لمس میں ٹھنڈک، وہ گرم لو ترا غم

نخیلِ زیست کی چھاؤں میں نے بلب تری یاد

فصیلِ دل کے کلس پر ستارہ جو ترا غم

طلوعِ مہر، شگفتِ سحر، سیاہیِ شب

تری طلب، تجھے پانے کی آرزو، ترا غم

نگہ اٹھی تو زمانے کے سامنے ترا روپ

پلک جھکی تو مرے دل کے روبرو ترا غم

 

منٹو

میں نے اس کو دیکھا ہے 

اجلی اجلی سڑکوں پر اک گرد بھری حیرانی میں 

پھیلتی بھیڑ کے اوندھے اوندھے کٹوروں کی طغیانی میں 

جب وہ خالی بوتل پھینک کے کہتا ہے 

دنیا! تیرا حسن، یہی بد صورتی ہے 

دنیا اس کو گھورتی ہے 

شور سلاسل بن کر گونجنے لگتا ہے 

انگاروں بھری آنکھوں میں یہ تند سوال 

کون ہے یہ جس نے اپنی بہکی بہکی سانسوں کا جال 

بام زماں پر پھینکا ہے 

کون ہے جو بل کھاتے ضمیروں کے پر پیچ دھندلکوں میں 

روحوں کے عفریت کدوں کے زہر اندوز محلکوں میں 

لے آیا ہے یوں بن پوچھے اپنے آپ 

عینک کے برفیلے شیشوں سے چھنتی نظروں کی چاپ 

کون ہے یہ گستاخ 

تاخ تڑاخ!

جن لفظوں میں 

جن لفظوں میں ہمارے دلوں کی بیعتیں ہیں کیا صرف وہ لفظ ہمارے کچھ بھی نہ کرنے 

کا کفارہ بن سکتے ہیں 

کیا کچھ چیختے معنوں والی سطریں سہارا بن سکتی ہیں ان کا 

جن کی آنکھوں میں اس دیس کی حد ان ویراں صحنوں تک ہے 

کیسے یہ شعر اور کیا ان کی حقیقت 

نا صاحب اس اپنے لفظوں بھرے کنستر سے چلو بھر کر بھیک کسی کو دے کر 

ہم سے اپنے قرض نہیں اتریں گے 

اور یہ قرض اب تک کس سے اور کب اترے ہیں 

لاکھوں نصرت مند ہجوموں کی خنداں خنداں خونیں آنکھوں سے بھرے ہوئے 

تاریخ کے چوراہوں پر 

صاحب تخت خداوندوں کی کٹتی گردنیں بھی حل کر نہ سکیں یہ مسائل 

اک سائل کے مسائل 

اپنے اپنے عروجوں کی افتادگیوں میں ڈوب گئیں سب تہذیبیں سب فلسفے

تو اب یہ سب حرف زبوروں میں جو مجلد ہیں کیا حاصل ان کا۔۔۔ 

جب تک میرا یہ دکھ خود میرے لہو کی دھڑکتی ٹکسالوں میں ڈھل کے دعاؤں بھری اس اک 

میلی جھولی میں نہ کھنکے 

جو رستے کے کنارے مرے قدموں پہ بچھی ہے 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

پاکستان کا مشن ورلڈ کپ!

آئی سی سی مینز ٹی 20ورلڈکپ شروع ہونے میں صرف 13روز باقی رہ گئے ہیں اور اس دوران پاکستان کرکٹ ٹیم نے انگلینڈ کے خلاف چار میچز پر مشتمل انٹرنیشنل ٹی 20 سیریز بھی کھیلنی ہے۔ امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں مشن ورلڈکپ سے قبل گرین شرٹس کو 3 انٹرنیشنل سیریز کھیلنے کا موقع ملا، ہوم گرائونڈ پر نیوزی لینڈ کیخلاف پانچ میچوں پر مشتمل ٹی 20 سیریز کھیلی۔

بہادر گلفام اور مون پری

گلفام کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔وہ بہت ہی رحمدل اور بہادر لڑکا تھا اور ہمہ وقت دوسروں کی مدد کرنے کیلئے تیار رہتا تھا۔

چھپائی کی ایجاد

چھپائی کی ایجاد سے پہلے کتابیں ایک بہت ہی بیش قیمت اور کم نظر آنے والی شے تھیں۔تب کتاب کو ہاتھوں سے لکھا جاتا تھا اور ایک کتاب کو مکمل کرنے میں مہینوں لگ جاتے تھے،لیکن آج چھپائی کی مدد سے ہم صرف چند گھنٹوں میں ہزاروں کتابیں چھاپ سکتے ہیں۔

ذرامسکرائیے

پولیس’’ تمہیں کل صبح پانچ بجے پھانسی دی جائے گی‘‘ سردار: ’’ہا… ہا… ہا… ہا…‘‘ پولیس: ’’ ہنس کیوں رہے ہو‘‘؟سردار : ’’ میں تو اٹھتا ہی صبح نو بجے ہوں‘‘۔٭٭٭

حرف حرف موتی

٭… دوست کو عزت دو، محبت دو، احترام دو لیکن راز نہ دو۔ ٭… عقل مند اپنے دوستوں میں خوبی تلاش کرتا ہے۔ ٭… ہمیں خود کو درخت کے پتوں کی طرح سمجھنا چاہیے، یہ درخت نوع انسانی ہیں۔ ہم دوسرے انسانوں کے بغیر نہیں جی سکتے۔

پہیلیاں

(1)آپ مجھے جانتے نہیں ہیں مگر مجھے تلاش کرتے ہیں، میرے بارے میں دوستوں سے سوال کرتے ہیں، جب مجھے جان لیتے ہیں تو مجھے تلاش کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی، میری اہمیت تب تک ہے، جب تک آپ مجھے تلاش نہ کر لیں، سوچئے میں کون ہوں؟