صلح حدیبیہ،بیعت رضوان

تحریر : مولانا قاری محمد سلمان عثمانی


’اے محمد(ﷺ)ہم نے آپ کو کھلی اور واضح فتح عطا فرمائی‘‘(سورۃ الفتح) ماہ ذوالقعدہ میں ہونے والا سبق آموزایک تاریخی معاہدہ صلح حدیبیہ کی وجہ سے جو لوگ اپنا اسلام ظاہر نہیں کر سکتے تھے وہ اعلانیہ طور پر اپنا اسلام ظاہر کرنے اور اس پر عمل کرنے لگے

قریشِ مکہ کو جب اس بات کا علم ہوا کہ نبی کریمﷺ نے حضرت عثمان ؓ کا بدلہ لینے کیلئے اپنے ہمراہ آئے ہوئے صحابہ کرامؓ سے بیعت علی الموت لی ہے تو وہ بہت زیادہ خوفزدہ ہوئے اور صلح کیلئے مجبوراً آپﷺ کی خدمت میں قاصدوں کو پیغامات دے کر بھیجنا شروع کیا۔ قبیلہ خزاعہ جو ابھی مسلمان نہ ہوا تھا لیکن شروع سے مسلمانوں کا خیرخواہ اور راز دار رہا تھا۔ مشرکین مکہ کی اسلام دشمن سازشوں سے آپﷺ کو باخبر رکھا کرتا تھا۔ اسی قبیلہ کے سردار بدیل بن ورقاء خزاعی اپنے قبیلے کے چند اشخاص کو لے کر پہنچا اور خدمت اقدسؐ میں عرض کی کہ قریش نے مکہ کے قریب حدیبیہ کے پاس پانی کے چشموں پر اپنے بڑے لشکر کو جمع کر لیا ہے تاکہ آپﷺ کو بیت اللہ جانے سے روک سکیں اور اگر مزاحمت ہو تو طویل عرصے تک جنگ کرنے کیلئے اپنے ساتھ دودھ والی اونٹیاں بھی لے آئے ہیں۔

 آپﷺ نے فرمایا ’’ہم صرف عمرہ کیلئے آئے ہیں، کچھ عرصے سے جاری لڑائیوں نے قریش کو کمزور کر دیا ہے اگر وہ چاہیں تو میں ان کیلئے صلح کی ایک مدت مقرر کر دیتا ہوں۔ اگر اللہ کے فضل سے میں غالب آ جاؤں تو پھر ان کو اختیار ہے اگر خوشی سے میرے دین میں داخل ہونا چاہیں تو ہو جائیں، جیسا کہ ان کے علاوہ دوسرے لوگ داخل ہو رہے ہیں۔ اگر اس دوران کوئی اور مجھ پر غالب آجائے تو پھر ان کی مراد پوری ہو جائے گی۔ اتنی بات ضرور ذہن میں رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ضرور اپنے دین کو غالب فرمائیںگے۔ اس نے دین کے ظہور، غلبہ اور فتح و نصرت کا جو وعدہ فرمایا ہے وہ ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ 

آپﷺ کی یہ باتیں سن کر بدیل بن ورقاء واپس قریش کے پاس گئے اور ان سے کہا ہم اس شخص(محمد ﷺ) سے کچھ باتیں سن کر آ رہے ہیں اگر آپ لوگ چاہتے ہیں تو میں وہ باتیں آپ کو سنا دوں؟ اس پر کچھ لوگوں نے کہا کہ ہمیں ان کی باتیں سننے کی ضرورت نہیں۔ مگر قریش کے چند سمجھ دار لوگوں نے کہا کہ ہمیں وہ باتیں سنائو۔ بدیل بن ورقاء نے کہا اے قریش!آپ لوگ جلد باز ہو۔ محمدﷺ تم سے لڑنے کیلئے نہیں بلکہ صرف عمرہ کرنے کیلئے آئے ہیں۔ (تم سے دب کر نہیں بلکہ تمہاری خیرخواہی کے طور پر) تم سے صلح کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس شخص(محمدﷺ) نے تمہاری بھلائی کی بات کی ہے۔ میرے نزدیک اس(معقول) بات کو ضرور قبول کر لینا چاہیے۔ 

حضرت مسور بن مخرمہؓ اور حضرت مروانؓ سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے کہ عروہ بن مسعود (قبول اسلام سے پہلے قریش مکہ کی طرف سے نمائندہ بن کر آئے تو) صحابہ کرامؓ کا جائزہ لیتے رہے اور قریش مکہ سے کہنے لگے: اے قوم! اللہ ربّ العزت کی قسم! میں (بڑے بڑے) بادشاہوں کے درباروں میں وفد لے کر گیا ہوں، میں قیصر و کسری اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں گیا ہوں۔ لیکن خدا کی قسم! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ اس کے درباری اس کی اس درجہ تعظیم کرتے ہوں جیسے محمدﷺکے صحابہ ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! جب وہ لُعابِ دہن زمین پر ڈالنا چاہتے ہیں تو ان کا لعاب دہن کسی نہ کسی صحابی کی ہتھیلی پر ہی گرتا، جسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے۔ جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو فوراً ان کے حکم کی تعمیل ہوتی، جب وہ وضو فرماتے ہیں تو یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ لوگ ان کے وضو کا استعمال شدہ پانی حاصل کرنے کی سعادت حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جائیں گے، وہ ان کی بارگاہ میں اپنی آوازوں کو آہستہ رکھتے ہیں اور انتہا درجہ تعظیم کے وجہ سے وہ ان کی طرف آنکھ بھر کر دیکھ نہیں سکتے۔ (صحیح البخاری،رقم الحدیث: 2732)

حلیس بن علقمہ کنانی کی آمد:عروہ بن مسعود کی گفتگو سننے کے بعد حبشیوں کے سردار حلیس بن علقمہ کنانی نے قریش مکہ سے کہا کہ مجھے اجازت دیں میں مل کر آتا ہوں۔ آپﷺ نے اسے آتے دیکھا تو فرمایا کہ قربانی کے جانوروں کو کھڑا کر دو، آنے والا شخص ان لوگوں میں سے ہے جو قربانی کے جانوروں کی تعظیم کرتے ہیں۔ حلیس قربانی کے اونٹوں کا کھڑا دیکھ کر راستے سے ہی واپس ہو گیا اور قریش سے جا کر کہنے لگا: رب کعبہ کی قسم!یہ لوگ صرف عمرہ کرنے کیلئے آئے ہیں انہیں بیت اللہ سے نہیں روکا جا سکتا۔ 

سہیل بن عمرو کی آمد پر نیک فالی:قریش نے سہیل بن عمرو کو بھیجا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان لوگوں کا ارادہ صلح کرنے کا ہے اس لیے ’’سُہیل‘‘ کو بھیجا ہے۔ سُہیل چونکہ تصغیر کا صیغہ ہے جو تقلیل پر دلالت کرتا ہے اس لیے آپ ﷺ نے اس سے نیک فالی لی کہ اب معاملہ میں کچھ نرمی کی امید ہے۔ سہیل نے کہا کہ ہمارے درمیان معاہدہ تحریری طور پر آ جائے۔ اس کیلئے آپ ﷺ نے حضرت علی المرتضیٰؓ کو بلایا اور فرمایا کہ لکھو: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سہیل نے کہا: رحمٰن کیا ہے؟ میں نہیں جانتا۔ اس نے کہا کہ (عربوں کے قدیم دستور کے مطابق) باسمک اللھم لکھا جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کوئی حرج نہیں، علی! یہی لکھ دو۔ آپ ﷺ نے لکھوایا: یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ہے۔

اس پر سہیل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا یہی تو جھگڑا ہے اگر ہم آپﷺ کو اللہ کا رسول مانتے تو بیت اللہ آنے سے کیوں روکتے؟ اور جنگ کیوں کرتے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اگرچہ تم جھٹلاتے رہو لیکن صحیح بات یہی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ سہیل نے کہا کہ محمدﷺ بن عبداللہ لکھا جائے، آپ ﷺ نے فرمایا: علیؓ!پہلا لکھا ہوا مٹا دو۔ 

حضرت علی المرتضیٰؓ محبت کی دونوں رمزوں سے آشنا تھے اس لیے نے نہایت مودبانہ لہجے میں عرض کی: بھلا میں کیسے مٹا سکتا ہوں؟ اس پر آپﷺ نے فرمایا: مجھے وہ جگہ بتاؤجہاں رسول اللہ ﷺ لکھا ہے میں خود مٹا دیتا ہوں۔ حضرت علیؓ نے انگلی رکھ کر وہ جگہ بتلا دی آپ ﷺ نے خود اپنے ہاتھوں سے اس لفظ کو مٹا دیا اور حضرت علیؓ کو محمدؐ بن عبداللہ لکھنے کا حکم دیا۔

صلح نامے کی شرائط:بالآخر فریقین کی رضا مندی کے ساتھ درج ذیل شرائط پر ایک ’’عہد نامہ‘‘مرتب ہوا۔

1:دس سال تک فریقین کے درمیان کوئی لڑائی نہیں ہوگی۔ 

2:اگر کوئی شخص اپنے وارثوں کی اجازت کے بغیر مسلمان ہو کر آپﷺ کے پاس آئے گا آپﷺ اسے واپس کریں گے۔

3:جو شخص مسلمانوں میں سے قریش کے پاس آئے گا اسے نہیں لوٹایا جائے گا۔

4:اس سال آپﷺ عمرہ کیے بغیر ہی واپس جائیں اور آئندہ سال آکر عمرہ ادا کریں۔

5:مسلمان صرف تین دن مکہ میں ٹھہر سکتے ہیں اور اپنے ہتھیاروں کو نیاموں میں بند رکھنے کے پابند ہوں گے۔ 

جس وقت یہ عہد نامہ مرتب ہو رہا تھا اس وقت متحدہ قبائل کو مکمل طور پر یہ اختیار دیا گیا کہ وہ جس کسی کے عہد میں شامل ہونا چاہیں، ہو جائیں۔ قبیلہ بنو خزاعہ نبی کریم ﷺ کے عہد میں جبکہ قبیلہ بنوبکر قریش کے عہد میں شامل ہوا۔

ابوجندلؓ کی مکہ سے حدیبیہ آمد: ابھی صلح نامہ لکھا ہی جا رہا تھا کہ سہیل بن عمرو کے بیٹے ابوجندلؓ (جو اس واقعے سے پہلے ہی مسلمان ہو چکے تھے) پاؤں میں بیڑیاں ڈالے آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ سہیل بن عمرو نے ان کو دیکھتے ہی کہا کہ یہ پہلا شخص ہے جو عہد نامے کے مطابق واپس ہونا چاہیے۔

 آپ ﷺ نے فرمایا: ابھی صلح نامہ مکمل لکھا نہیں گیا (لکھے جانے اور اس پر فریقین کے دستخط ہونے کے بعد نافذ العمل ہونا چاہیے)۔ آپ ﷺ نے بار بار سہیل بن عمرو سے فرمایا، لیکن سہیل نے اسے تسلیم نہ کیا۔ آخر کار آپ ﷺ نے ابوجندلؓ کو سہیل کے حوالے کر دیا۔ 

ابوجندلؓ نے حسرت بھری آہ بھری۔ آپﷺ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ابوجندل! صبر سے کام لو اور اللہ سے اچھی امید رکھو ہم وعدہ خلافی کرنے والے لوگ نہیں، بہت جلد اللہ تعالیٰ تمہاری نجات کا راستہ نکالیں گے۔

صحابہ کرامؓ کی آس: صلح نامہ سے فارغ ہو کر نبی کریم ﷺ نے صحابہؓ سے ارشاد فرمایا: اپنے احرام کھول دو، قربانی کے جانور ذبح کر لو اور اپنے سر منڈوا لو۔ صحابہ کرامؓ کی خواہش یہ تھی کہ ہم عمرہ کر کے واپس جائیں۔ اس آس میں تھے کہ شاید نبی کریمﷺ کی طرف سے عمرہ کی ادائیگی کا حکم مل جائے۔ اس لیے تامل سے کام لیا۔ آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو تین مرتبہ یہی ارشاد فرمایا۔ اس کے بعد خیمے میں تشریف لائے اور سیدہ ام سلمہؓ کو اس معاملے سے آگاہ فرمایا۔

سیدہ ام سلمہؓ کا دانش مندانہ کردار:آپؓ نے عرض کی ’’یارسول اللہﷺ! کیا آپﷺ یہ چاہتے ہیں کہ سب احرام کھول دیں؟تو پھر ایسا کریں کہ آپﷺ باہر نکل کر اپنے جانور ذبح فرما دیں اور اپنے بال مونڈا لیں‘‘۔ نبی کریمﷺ نے ایسا ہی کیا اور باہر نکل کر اپنا جانور ذبح کر دیا اور بال منڈا لیے۔اس کو دیکھتے ہوئے صحابہ کرامؓ کی وہ آس بھی ختم ہو گئی کہ شاید عمرہ کی ادائیگی کا حکم مل ہی جائے۔ صحابہ کرامؓ نے بھی احرام کھول دیے اور اپنے جانور ذبح کر ڈالے۔

مسلمان کچھ اور سوچ کر سفر کیلئے نکلے تھے لیکن معاملہ بالکل برعکس ہوا تو بے انتہا صدمے سے دوچار ہوئے۔ حدیبیہ سے و ا پسی پر مکہ و مدینہ کے درمیانی جگہ پہنچے تو سورۃ الفتح کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں کہ ’’اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)ہم نے آپ کو کھلی اور واضح فتح عطا فرمائی‘‘۔ آپ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو جمع فرمایا اور وحی الہٰی سنائی۔

صلح حدیبیہ کے فوائد و ثمرات: اس صلح کی وجہ سے وہ دوریاں دور ہوئیں جن کے ہوتے ہوئے آپس میں مل جل نہیں سکتے تھے۔ اس صلح کی وجہ سے جو لوگ اپنا اسلام ظاہر نہیں کر سکتے تھے وہ اعلانیہ طور پر اپنا اسلام ظاہر کرنے اور اس پر عمل کرنے لگے۔ یہ اسی صلح کے ثمر تھا کہ صلح حدیبیہ سے لے کر فتح مکہ تک کے مختصر عرصے میں اتنی کثرت سے لوگ مسلمان ہوئے کہ ابتداء بعثت سے لے کر اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ 

اللہ رب العزت ہمیں اپنے آخری نبیﷺ کی سیرتِ طیبہ کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔