عدم برداشت: معاشرے کی تباہی کا سبب

تحریر : مولانا محمد الیاس گھمن


(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ آپ اِن لوگوں کیلئے بہت نرم مزاج واقع ہوئے، اگر کہیں تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے(القرآن) قرآن پاک میں تمسخر اڑانے،برے القابات سے پکارنے اور طعنہ زنی سے منع کیا گیا ہے

اس وقت ہمارا معاشرہ عدم برداشت کی لپیٹ میں ہے اور لوگ چھوٹی چھوٹی بات پر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ خاندانی سطح پر ہم شوہر اور بیوی کے جھگڑوں کی باتیں سنتے رہتے ہیں۔ اکثر ہم یہ بھی سنتے ہیں کہ شوہر نے غصے میں آ کر بیوی کو طلاق دے دی۔ کچھ یہی کیفیت عورتوں میں دیکھنے کو ملتی ہے، وہ شوہر کی نصیحت کو بھی قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتیں اور بات معمولی جھگڑے سے بڑھتی بڑھتی خلع اور تنسیخ نکاح کے مقدمات تک پہنچ جاتی ہے۔  

اہلِ دانش کے بقول ’’ عدم برداشت ایک ایسی دماغی کیفیت کا نام ہے جس میں کوئی انسان ہر چیز اور ہر واقعہ کو صرف ایک ہی زاویہ سے دیکھتا ہواور اختلاف رائے کو بالکل برداشت نہ کرتا ہو‘‘۔بہ الفاظِ دیگر، اختلاف کو برداشت نہ کرنے اور تشدد کا راستہ اختیار کرنے سے معاشرہ ایک جہنم بن جاتا ہے۔ اگرچہ تاریخ انسانی کے آغازسے ہی عدم برداشت کا آغاز ہوگیا تھا ،جب اللہ کے پہلے نبی حضرت آدمؑ کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو  قتل کیا۔ بعد ازاں ہر نبی ؑ کے دور میں بھی مذہبی و نظریاتی اختلافات تشدد کا باعث بنے۔ کبھی خدا کے رسولوں کی توہین ہوئی تو کبھی ان کے پیروکاروں کو ظلم و جبر کا نشانہ بنایا گیا۔ حتیٰ کہ لوگوں نے اس بناء پرسیدالمرسلین، وجہ تخلیق کائنات، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیﷺ کو بھی اس حد تک اذیتیں پہنچائیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’اتنا کسی نبی کو نہیں ستایا گیا جتنا مجھے ستایا گیا‘‘۔

 انسان ہر دور میں عدم برداشت کا شکار رہے ہیں۔ یہ معاشرتی ناسور بن چکا ہے،جو معاشرے کی اخلاقی اقدار اور امن و سکون کو غارت کردیتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں  معمولی اختلاف پر قتل تک کر دیا جاتا ہے۔ دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح ہماری ملکی سیاست میں بھی عدم تشدد کا رجحان بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ موجودہ سیاسی کشمکش میں حالات اس موڑ پر آ چکے ہیں کہ سیاسی قائدین سے لے کر کارکنان تک (سوائے چند ایک کے) سب کے سب نفرت، دشمنی، الزام تراشی، بہتان بازی، گالم گلوچ، ہتک عزت پر اتر آئے ہیں۔ عدم برداشت کے ماحول نے علاقائی بلکہ گھریلو نظام زندگی کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ اہلیان پاکستان کے سامنے اس حوالے سے چند اسلامی تعلیمات کو پیش کیا جائے تاکہ انہیں اپنے رویوں کی اصلاح کا موقع ملے۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:  ’’(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ آپ اِن لوگوں کیلئے بہت نرم مزاج واقع ہوئے، اگر کہیں تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردوپیش سے چھٹ جاتے(آل عمران )۔اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کے برداشت،  حلم اور کمال عفو و درگزر کی تعریف فرمائی ہے۔

ذاتیات نہیں نظریات: سب سے بنیادی اور اصولی بات یہ ہے کہ سیاست کے میدان میں صحیح دلائل کی بنیاد پر اختلاف کا مدار کسی کی ذات کے بجائے اس کے سیاسی نظریات کو بنانا چاہیے۔ اگر آپ کسی سیاسی لیڈر کے نظریات کو اسلام اور آئین کے موافق سمجھتے ہیں تو اس کا ساتھ دیں اور اگر اسلام اور آئین پاکستان کے مخالف سمجھتے ہیں یا اس کی سیاسی پالیسوں کو ملک کے حق میں مفید کے بجائے نقصاندہ سمجھتے ہیں تو ہرگز اس کا ساتھ نہ دیں۔ 

پردہ پوشی کریں: سیاسی کشمکش میں حریف سیاسی پارٹی کے قائدین و کارکنان کے عیوب اور اخلاقی کمزوریوں کو نہ اچھالیں۔ اگر کسی مسلمان بھائی کا ذاتی عیب نظر بھی آئے تو اسے لوگوں کے سامنے ظاہر کرنے کے بجائے چھپائیں۔ یہ اتنا عظیم کام ہے کہ اللہ کریم اس کے بدلے قیامت کے دن انسان کے اپنے گناہ لوگوں سے چھپا لیں گے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب چھپائے گا تو اللہ کریم روز قیامت اس کے گناہوں کو چھپالیں گے (صحیح مسلم:  4692)۔

پردہ دری سے بچیں: اگر کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کے ذاتی عیوب کی پردہ دری کرتا ہے جیسا کہ سیاسی میٹنگز، سیمینارز اور پریس کانفرنسوں میں ہو رہا ہے، یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس دنیا میں گھر بیٹھے انسان کو رسوا فرما دیتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو کسی دوسرے کی ’’پردہ پوشی‘‘ کرتا ہے اللہ قیامت کے دن اس کے عیوب اور گناہوں کو چھپالیں گے اور جو شخص لوگوں کی ’’پردہ دری‘‘ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو گھر بیٹھے ذلیل اور رسوا کر دیتا ہے‘‘ (ابن ماجہ: 2546)

 

سچ بولیں، جھوٹ سے بچیں: سیاسی کشمکش کے اس ماحول میں سب سے زیادہ سچ اور جھوٹ کا فرق جان بوجھ کر ختم کیا جا رہا ہے۔ سچ بولنا، سچ کا ساتھ دینا بہت بڑی نیکی اور مومن کی شان ہے جبکہ جھوٹ بولنا اور جھوٹ کا ساتھ دینا گناہ ہے اس سے بچنا  ضروری ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سچائی ایسا عمل ہے جو نیکی کی راہ پر چلاتا ہے اور نیکی والا راستہ سیدھا جنت جاتا ہے، بیشک آدمی سچ بولتا رہتا ہے، بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ’’صدیق‘‘ بن جاتا ہے۔ جھوٹ ایسا عمل ہے جو برائی کی راہ پر چلاتا ہے جوسیدھا جہنم جاتا ہے اور بیشک جب کوئی آدمی جھوٹ کی عادت ڈال لیتا ہے وہ جھوٹ بولتا رہتا ہے بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے (صحیح مسلم: 6803) 

تمسخر، طعنہ زنی سے بچیں: موجودہ سیاسی کشمکش میں قائدین و کارکنان ایک دوسرے کا تمسخر اڑا رہے ہیںاور ایک دوسروں کو برے القابات دے رہے ہیں، یہ انتہائی گھٹیا پن ہے۔ قرآن کریم نے اس سے سختی سے روکا ہے اور ساتھ میں دعوت فکر بھی دی ہے کہ جس مسلمان سے تم تمسخر کر رہے ہو سکتا ہے کہ وہ تم سے بہتر ہو۔ اسی طرح طعنہ زنی سے بھی روکا ہے اور برے القابات سے منع فرمایا ہے۔ ہم سب سے پہلے مسلمان ہیں بعد میں ہم کسی سیاسی جماعت کے افراد ہیں۔ لہٰذا پارٹی کی وجہ سے اپنی زندگی کو کبیرہ گناہوں میں تباہ نہیں کرنا چاہیے۔ مفہوم آیت: ’’اے ایمان والو! نہ تو مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہے ہیں) خود ان سے بہتر ہوں، اور نہ دوسری عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہی ہیں) خود ان سے بہتر ہوں اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو، اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد گناہ کا نام لگنا بہت بری بات ہے۔جو لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں تو وہ ظالم لوگ ہیں‘‘(الحجرات : 11)۔

بدگمانی اور غیبت سے بچیں: سیاسی کشمکش میں بدگمانی (بلکہ بد زبانی)، عیب جوئی اور سیاسی حریفوں کی غیبت کرنا محبوب مشغلہ سمجھا جاتا ہے۔ ہر گلی محلے میں سیاسی تبصرے و تجزیے ہو رہے ہیں جن میں مذکورہ گناہ عام پائے جاتے ہیں حالانکہ قرآن کریم ان سے منع کرتا ہے۔ مفہوم آیت: ’’اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، اور کسی کی ٹوہ میں نہ لگو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو خود تم نفرت کرتے ہو، اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا،بہت مہربان ہے‘‘(سورۃ الحجرات: 12)۔

لڑائی کے بجائے صلح کریں: سیاسی کشمکش میں ہر دوسرے گھر میں لڑائی جھگڑا پایا جا رہا ہے، رشتہ داروں سے بول چال ختم ہو رہی ہے، دوستی، دشمنی میں بدل رہی ہے، دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ نفرتیں عام ہو رہی ہیں اور صلح کے دروازے بند ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم نے اہل ایمان کو آپس میں بھائی بھائی قرار دے کر ان کے درمیان صلح کرانے کا حکم دیا ہے۔ مفہوم آیت: ’’حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں، اس لیے اپنے دو بھائیوں کے درمیان تعلقات اچھے بناؤ، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہارے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا جائے‘‘ (سورۃ الحجرات: 10)۔حضرت ابو الدرداؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جودرجہ میں نفلی روزے، نفلی نماز اور نفلی صدقے سے بھی زیادہ فضیلت والی ہے۔صحابہ کرامؓنے عرض کی ضرور بتایئے! آپ ﷺ نے فرمایا: وہ لوگوں کے درمیان ’’صلح صفائی‘‘ کرانا ہے۔ اس لیے کہ باہمی ناچاقی اور پھوٹ دین کو ختم کرنے والی چیز ہے (جامع الترمذی: 2433)۔

سیاسی قائدین کی ذمہ داریاں:  سب سے بڑی ذمہ داری پارٹیوں کے قائدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے کارکنان کی ذہن سازی کریں، انہیں اسلامی تعلیمات اور آئین پاکستان کا وفادار بننے کا درس دیں۔ اپنے سیاسی مفادات کی خاطر کارکنان کی اسلامی تہذیب اور اخلاقی اقدار کو داؤ پر نہ لگائیں۔ اپنے ہر کارکن کو اسلام اور آئین پاکستان کا وفادار بنانے اور اچھے اخلاق کا حامل مہذب شہری بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ کارکنان کو جذباتی بنا کر ملک میں افراتفری نہ مچائیں۔ پرامن احتجاج آپ کا حق ہے، اس کی آڑ میں خون خرابے نہ کرائیں۔ 

سیاسی کارکنان کی ذمہ داریاں: اس کے بعد سیاسی شعور رکھنے والے کارکنان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خوب سمجھ داری سے کام لیں، حقائق کو دیکھیں، اپنے لیڈر کی پالیسیوں کو اچھی طرح  پرکھیں۔ اگر وہ واقعی اسلام اورآئین پاکستان کے حق میں مفید ہیں تو دیانت داری کے ساتھ اس کا ساتھ دیں اور اگر حقائق اس کے برعکس ہوں تو جرم کا ساتھ دینے کے بجائے حق کا ساتھ دیں۔ 

صحافی برادری کی ذمہ داریاں: آخر میں اپنی صحافی برادری کی خدمت میں یہ گزارش کرتا ہوں کہ آپ غیر جانبدار ہو کر دیانت کے ساتھ اپنی پیشہ وارانہ خدمات سرانجام دیں۔ صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح قرار دینے کے جرم سے باز رہیں۔ ملک میں پھیلی ہوئی انارکی کو کم کرنے کی کوشش کریں اسے مزید بڑھاوا نہ دیں۔ مختلف پارٹیوں کی ترجمان شخصیات کو آپس میں نہ لڑائیں۔ پوری اسلامی دنیا کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں عالمی دنیا کے سامنے اسے مذاق نہ بنائیں، اس کی ایسی تصویر پیش نہ کریں جس سے عالم اسلام کی امیدیں ٹوٹنا شروع ہو جائیں۔ اپنے ملک کی مثبت تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں۔ یہ ملک ہم سب کا ہے۔ اسی کی بقا اور استحکام میں ہماری بقا اور استحکام ہے۔ اللہ کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

میدان محشر میں نعمتوں کا سوال!

’’اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ (سورہ ابراہیم :7) ’’اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (سورۃ النحل : 78)’’اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو‘‘ (البقرہ )’’اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے جو کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)

کامیاب انسان کون؟

’’وہ اہل ایمان کامیابی پائیں گے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں‘‘ (المومنون) قرآن و سنت کی روشنی میں صفاتِ مومناللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے خود کو گناہوں سے بچالیا حقیقتاً وہی کامیاب ہوا(سورۃ الیل)

صدقہ: اللہ کی رضا، رحمت اور مغفرت کا ذریعہ

’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘(سورۃ البقرہ)

مسائل اور ان کا حل

’’اسے اپنے گھر لے جاو‘‘ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی سوال :میں نے اپنی بیوی سے ایک موقع پرکہاتھاکہ میں تمہیں کبھی ناراض نہیں کروں گا،اگرکوئی ناراضی ہوئی توآپ کے کہنے پرطلاق بھی دے دوں گا۔

فیض حمید کی سزا،بعد کا منظر نامہ

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سزا سنا دی گئی ہے جو کئی حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔ ریاست ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے عناصر کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے امکانات

چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے،لیکن حکومتِ پنجاب نے10 جنوری تک کا وقت مانگا ہے۔ پنجاب حکومت نے انتخابی بندوبست کرنا ہے جبکہ شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔