ادب میں نفسیاتی تنقید

تحریر : ڈاکٹر سلیم اختر


ادبی تخلیقات ادیب کے ذہن کی پیداوار ہیں، اس لئے تخلیق کرنے والے ذہن اور شخصیت سے آنکھیں بند کرکے تخلیقات کا مطالعہ اگر قطعی طور پر بے سود نہ بھی قرار دیا جائے تو بعض ناقدین (جن میں رومانی ناقدین سرفہرست ہیں) کے بموجب یہ مطالعہ یکطرفہ اور محدود ضرور سمجھا جا سکتا ہے۔

ذہن سے تخلیق و نقد کے تعلق کو ڈیوڈ ڈیشز کے الفاظ میں یوں اجاگر کیا جا سکتا ہے: ’’ادبی تخلیق کی ماہیت کی تشرح و توضیح کرتے وقت نقاد نفسیات کی طرف رجوع کرتے ہوئے بالعموم یہ بحث چھیڑتا ہے کہ کس مخصوص ذہنی کیفیت نے خاص نوع کی تخلیق جنم دی۔ چنانچہ ادبی تنقید میں نفسیات دو طرح سے کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ ایک تو تخلیق عمل کے مطالعہ میں اور دوسرے مصنفین کا ایسا نفسیاتی مطالعہ کرنے میں کہ ان کے ذہنی رویوں سے جنم لینے والی مخصوص ذہنی کیفیات اور ان کی تخلیقات کے اہم ترین خصائص میں رابطہ اجاگر کیا جا سکے‘‘۔

کوئی بھی نظریہ ہو یا مخصوص تصور، یہ اچانک اور غیر متوقع طور پر خلا سے نمودار نہیں ہو جایا کرتا بلکہ یہ مخصوص نوعیت کے سماجی ، سیاسی، تہذیبی، تمدنی اور ادبی حالات و عوامل کا ثمر ہوتا ہے۔ ان حالات و عوامل کی اثر اندازی بھی اچانک نہیں ہوتی بلکہ ان سب کو مخصوص نوعیت کا محرک بنانے میں زمانہ کئی کروٹیں لیتا ہے اور بعض اوقات تو یہ کروٹیں صدیوں پر محیط ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جدید عہد میں شاید ہی فلسفہ اور علم و نقد کا کوئی ایسا نظریہ ہو جس کے ابتدائی نقوش قدیم یونانیوں کے ہاں نہ تلاش کئے جا سکتے ہوں۔ کچھ یہی حال ادبی تنقید میں نفسیاتی بصیرت کا ہے۔گو تحلیل نفسی کے نظریہ کو مکمل صورت اختیار کئے نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ نہیں گزرا لیکن اس کے ابتدائی نقوش و آثار مختلف عہد کی شخصیات کی تحریروں میں مل سکتے ہیں۔

نفسیاتی تنقید کے مطالعہ سے بیشتر یہ امر واضح رہے کہ خاصی دیر تک ادبی تنقید جمالیات کی ایک شاخ تصور ہوتی رہی اور اسے ایک جداگانہ علم کی حیثیت حاصل ہونے میں خاصی دیر لگی۔ اسی لئے جب ہم قدیم عہد میں ادبی تنقید کی بات کرتے ہیں تو اس سے پیشہ ور ادبی ناقد سے مراد نہیں ہوتی بلکہ ایک ایسے فلاسفر سے جس نے فلسفہ جمال کے سلسلے میں تخلیقات کے حسن کو بھی پرکھنے کی سعی کی ہو۔ یونان میںعلم کی تقسیم واضح اور قطعی نہ تھی گو انہوں نے ادب و فن اور علم و حکمت کو مختلف دیویوں کے تابع کر رکھا تھا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ چند استثنائی مثالوں سے قطع نظر ایک شخص بہت سے علوم و فنون کا ماہر ہوتا تھا۔ اسی لئے تو دنیا میں اصول نقد کی پہلی تصنیف کسی ادیب، شاعر یا(آج کے مفہوم ہیں) نقاد کی نہ تھی بلکہ ارسطو جیسے فلاسفر کی تھی۔ میری مراد اس کی ’’Poetics‘‘سے ہے۔ اسی طرح نفسیاتی تنقید کی اوّلین مثال افلاطون کی ’’Ion‘‘ میں مل جاتی ہے۔ چنانچہ ڈیوڈڈیشز کے خیال میں ’’افلاطون نے’’Ion‘‘میں تخلیقی عمل کی جس طرح سے وضاحت کی ہے اسے ایک لحاظ سے نفسیاتی وضاحت قرار دیا جا سکتا ہے‘‘۔ یہ امر خالی از دلچسپی نہیں کہ ان دونوں صاحب طرز فلاسفروں  کے مخصوص زاویہ نگاہ نے ادب و نقد اور تخلیق اور تخلیق کار کے بارے میں ان کے مخصوص رویے کا تعین کیا ہے۔ارسطو کا طریق کار ایک سائنس دان سے مشابہ قرار دیا جا سکتا ہے جو اشیاء کی تحلیل کے بعد ان کے مشترک خواص دریافت کرکے ان کی ماہیت تک پہنچتا اور پھر کارکردگی کے بارے میں عمومی اصول وضع کرتا ہے۔اسی لئے ’’Poetic‘‘ میں اس نے یونانی ڈراموں کی ماہیت اور ان کے عناصر ترکیبی کے بارے میں زیادہ دلچسپی ظاہر کی۔ لیکن اس امر سے تعرض نہ کیا کہ ڈرامہ نگار کس عمل سے گزر کر تخلیق کی منزل تک پہنچتا ہے جب کہ اس کے برعکس افلاطون کو اشیاء اور افراد کے داخلی محرکات و عوامل سے زیادہ دلچسپی تھی۔ چنانچہ افلاطون کے مکالمات میں قدم قدم پر اس کا اظہار ہوتا ہے، وہ ہر موقع پر افراد اشیاء اور وقوعات کے داخلی نظام کی تفہیم کا خواہاں نظر آتا ہے۔ اسی لئے تخلیق کے ضمن میں نفسیاتی نقطہ نظر افلاطون سے منسوب کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ’’Ion‘‘میں سقراط کی زبان سے افلاطون نے شاعر اور شاعری کے بارے میں جو طویل بحث کی ہے کو اس کی اساس بھی اس نکتہ پر استوار ہے کہ شاعری و جدانی دیوانگی کی بنا پر ہے (افلاطون’’Phaedrus‘‘میں بھی ایسے خیالات کا اظہار کر چکا تھا) لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے تخلیق کے بارے میں یہ بھی کہا: ’’یہ بالکل درست ہے کہ شاعر سبک ہونے کے ساتھ ساتھ طاقت پرواز بھی رکھتا ہے اور اس میں جو کچھ بھی ایجاد و اختراع ہے وہ بلاالہام نہیں اور حواس سے بیگانگی کی مرہون منت ہے کہ اس طرح وہ اپنے ذہن سے عاری ہوتا ہے۔ لیکن اگر وہ جنون کی اس منزل تک نہ پہنچ پائے تو وہ بے دست و پا ہو کر اپنے پیغامات سنانے کے قابل نہیں رہتا۔ انسانوں کے افعال و  اعمال کے بارے میں شعراء کیا شاندار الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن جس طرح تم ہومر کا ذکر کرتے ہو اسی طرح تمہاری ہی مانند وہ بھی اظہار میں قوانین کے تابع نہیں ہوتے۔ وہ تو صرف وہی کچھ ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو فن کی دیوی ان سے ادا کروانا چاہتی ہے۔ شاعر فنی قوانین سے نغمات کی تخلیق نہیں کرتا بلکہ صرف اپنی اندرونی قوت سے! اگر اس نے یہ سب کچھ فن کے قوانین سے حاصل کیا ہوتا تو وہ صرف کسی ایک صنف کا ماہر ہونے کی بجائے تمام اصناف پر حاوی ہوتا‘‘۔

یہ اور اس انداز کی اور مثالیں بھی مل سکتی ہیں لیکن ان سب کے سلسلے میں یہ اہم حقیقت ذہن نشین رکھنی ہو گی کہ یہ مخفی اشارات ہیں۔ ایسے اشارات جن میں بعض صورتوں میں ہم خود ہی اپنے من پسند مفہوم کا عکس دیکھتے ہیں۔ یہ قدماء کی ذہنی عظمت کا ایک کرشمہ ہے کہ انہوں نے واضح یا مبہم طور پر اتنا کچھ کہا ہے کہ آج بھی ان کے افکار و تصورات میں دنیا کے بیشتر علوم و فنون کی اکثر اوّلین مثالیں نہ ملیں تو ابتدائی اشارات تو یقیناً مل جاتے ہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

خود اعتمادی، خواتین کی معاشرتی ضرورت

خود اعتمادی ہر شخص کی شخصیت، کامیابی اور ذہنی سکون کا بنیادی جزو ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو انسان کو اپنے فیصلوں، خیالات اور احساسات پر یقین کرنے کی ہمت دیتی ہے۔

شال، دوپٹہ اور کوٹ پہننے کے سٹائل

سردیوں کا موسم خواتین کے فیشن میں تنوع اور نفاست لے کر آتا ہے۔ اس موسم میں شال، دوپٹہ اور کوٹ نہ صرف جسم کو گرم رکھتے ہیں بلکہ شخصیت، وقار اور انداز کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ درست سٹائل کا انتخاب خواتین کے لباس کو عام سے خاص بنا سکتا ہے۔

آج کا پکوان:فِش کباب

اجزا : فش فِلے : 500 گرام،پیاز :1 درمیانہ (باریک کٹا ہوا)،ہری مرچ : 2 عدد (باریک کٹی)،ہرا دھنیا : 2 چمچ،ادرک لہسن پیسٹ :1 چمچ،نمک : 1 چمچ،لال مرچ پاؤڈر : 1چمچ،کالی مرچ : آدھا چائے کا چمچ،زیرہ پاؤڈر : 1 چائے کا چمچ،دھنیا

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے