بچوں میں دانتوں کے مسائل

تحریر : تحریم نیازی


دانتوں کی حفاظت اور صفائی کا خیال نہ رکھنا صحت کو تباہ کرنیوالی چند بُری عادات میں سے ایک ہے۔ صحت مند دانتوں کیلئے انسانی زندگی کے مختلف مرحلوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ نوزائیدہ بچے سے لے کر اڑھائی سال کی عمر تک، اڑھائی سے پانچ سال کی عمر تک اور بلوغت سے تیس سال کی عمر تک۔ حمل کے تین ماہ بعد نظام حیات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

 جس کے بعد دانتوں کے غوشے بھی بننا شروع ہو جاتے ہیں لہٰذا مائوں کو چاہیے کہ بھرپور اور متوازن غذا لیں۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کا دودھ بچے کیلئے مکمل غذا بنائی ہے۔ اگر بچے کو ماں کا دودھ میسر نہیں تو سمجھ لیں کہ اسے مکمل غذا نہیں مل رہی۔ ماں کے دودھ کی کمی سے دودھ کے دانت، مستقل دانت اور جبڑے کی ہڈی پوری طرح نہیں بن پاتے۔ ماں کا دودھ پینے والے بچوں کے دانت اور جبڑے کی ہڈی صحیح حالت میں رہتے ہیں۔ ان کے دانت نہ صرف مضبوط اور چمکدار نکلتے ہیں بلکہ ٹیڑھے بھی نہیں ہوتے۔ 

اگر آپ کا بچہ بھی دانتوں سے متعلق کسی قسم کے مسائل کا شکار ہے تو مائوں کیلئے بے حد ضروری ہے کہ وہ وجوہات اور ان سے نجات کا طریقہ جان لیں۔ بچوں میں حیاتین کی کمی سے مسوڑھے پھولنے لگتے ہیں۔ اگر بچے کو پوری خوراک نہ دی جائے یا سبزیاں پکاتے وقت ان کی حیاتین ضائع ہو جائے تو نتیجتاً بچے کے مسوڑھوں میں سوزش ہو جاتی ہے یا ان سے خون رسنے لگتا ہے۔ ایسی صورت میں بچے کو وہ غذائیں دی جائیں جن میں وٹامن سی اور بی موجود ہے۔ وٹامن کی کمی سے قوت مدافعت بھی کم ہو جاتی ہے۔ عام طور پر ڈھائی سال کی عمر تک بچے کے بیس دانت نکل آتے ہیں۔ اس وقت اگر دانتوں کی مکمل حفاظت نہ کی جائے اور ان کی صفائی کو نظر اندازکیا جائے تو دودھ کے دانتوں میں کیڑا لگنے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ تکلیف کے باعث بچہ کھانے سے بھاگنے لگتا ہے۔ جس سے اس کی قوت مدافعت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ بچوں میں مسوڑھوں سے متعلق امراض پیدا ہونے کی ایک اور بڑی وجہ ان کا ٹھیک سے دانت صاف نہ کرنا ہے۔ اس معاملے میں مائوں کو ہر گز لاپرواہی نہیں برتنی چاہیے اور بچے کو اپنے سامنے برش کروائیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ خاص طور پر چھوٹے بچوں کا کچھ عرصے بعد دانتوں کے ڈاکٹر سے معائنہ ضرور کروائیں۔ اس سے کسی بھی قسم کا مرض ابتدا میں ہی پکڑا جا سکتا ہے۔ 

بچوں میں اکثر انگوٹھا یا انگلی چوسنے،منہ سے ناخن کاٹنے،ہونٹ دانتوں سے چبانے جیسی عادات پائی جاتی ہیں۔جنہیں چھڑوانا بچے کی صحت کیلئے نہایت ضروری ہے۔ ایسا کرنے سے دانت ٹیڑھے، بھدے اور بڑے پیدا ہوتے ہیں۔ اکثر مائیں مصرو فیت کے دوران روتے ہوئے بچوں کو چپ کروانے کیلئے منہ میں چوسنی ڈال دیتی ہیں جو آہستہ آہستہ اس کی عادت بن جاتی ہے۔ منہ میں ہمہ وقت چوسنی رکھنے سے جبڑے کی شکل بگڑ جاتی ہے اور سامنے والے دانت باہر آ جاتے ہیں۔ دبائو پڑنے سے اگر ایک دانت بھی آرچ سے باہر آ جائے تو بعد میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔کوشش کرنی چاہیے کہ بچے کو کھلونوں یا کسی اور طریقے سے بہلایا جائے۔ 

چھوٹے بچوںمیٹھی اور چپکنے والی خوراک مثلاً ڈبل روٹی،چاکلیٹ ،ٹافی اور مشروبات وغیرہ سے دور رکھا جائے۔ میٹھا کھانے کے فوراً بعد دانت اچھی طرح صاف کیے جائیںکیونکہ کھانے کے پندرہ منٹ بعددانتوں میں بیماری کا عمل یعنی تیزاب بننا شروع ہو جاتاہے۔ مختلف قسم کی سخت غذائیں مثلاً گنا، گاجر، مولی وغیرہ کھانے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ رات سونے سے پہلے اور صبح اُٹھنے کے بعد برش کرنے کی عادت ڈالیں۔ ہر چھ ماہ بعد دانتوں کے ڈاکٹر سے بچے کا معائنہ ضرور کروائیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

اردو زبان و ادب کے بے مثال ادیب مشتاق احمد یوسفی

اردو ادب میں طنز و مزاح کی دنیا کئی قدآور شخصیات سے روشن ہے، مگر جس بلندی پر مشتاق احمد یوسفی کا نام جگمگاتا ہے، وہ ایک عہد، ایک معیار اور ایک حوالہ بن چکا ہے۔

سوء ادب:دو پیسے کا ہنر

دریا پار کرنے کیلئے کشتی روانہ ہونے لگی تو ایک درویش جو کنارے پر کھڑا تھا، اس نے ملاح سے کہا کہ مجھے بھی لے چلو۔ملاح نے کہا کہ اس کی فیس دو پیسے ہے، اگر تمہارے پاس دو پیسے ہیں تو آکر کشتی میں بیٹھ جاو۔ درویش کی جیب خالی تھی اس لیے وہ کشتی میں نہ بیٹھا۔ جب کشتی روانہ ہوئی تو درویش بھی ساتھ ساتھ پانی پر قدم رکھتے ہوئے چلنے لگا۔ جب کنارے پر پہنچے تو درویش بولا : آخر ہم نے بھی عمر بھر ریاض کیا ہے ۔

رفیق رسول کریم ؐ، کاتب وحی،خلیفہ سوم: شہادتِ سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ

حضرت عثمان غنی ؓعام الفیل کے چھ برس بعد پیدا ہوئے، آپؓ ابتدائے اسلام ہی میں ایمان لے آئے تھے۔آپ ؓ کا نام عثمان، کنیت ابو عبداللہ اور ابو عمر، لقب ذوالنورین، والد کا نام عفان، والدہ کا نام ارویٰ تھا۔

شرم و حیا اور دوسخا کے پیکر

حضرت سیدنا عثمان غنی ؓ تیسرے خلیفہ ہیں اور جناب رسول اللہ ﷺکے دوہرے داماد ہیں،جس کی وجہ سے آپ کو ذوالنورین کا لقب دیا گیا۔آپؓ کو ذوالہجرتین یعنی دو ہجرتوں والے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ آپؓ نے پہلے حبشہ اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔

خلافت عثمانی کی عظیم الشان فتوحات

عہد عثمانی میںممالک محروسہ کا دائرہ نہایت وسیع ہوا۔ افریقہ میں طرابلس، رقہ اور مراکش مفتوح ہوئے، ایران کی فتح تکمیل کو پہنچی۔ افغانستان، خراسان اور ترکستان کا ایک حصہ زیر نگین ہوا۔ دوسری سمت آرمینیا اور آزربائیجان مفتوح ہوکر اسلامی سرحد کوہ قاف تک پھیل گئی۔

جامع القرآن

ذوالحجہ کے مہینے کواسلامی سال میں خاص اہمیت حاصل ہے اس مقدس مہینے میں ایثار و قربانی کے بے شما ر واقعات رونماہوئے جن میں جامع القرآن حضرت عثمان غنی ؓکایومِ شہادت بھی ہے۔