حسرت موہانی کی شرح دیوان غالب

تحریر : پروفیسر صابر علی


غالب پر اب تک نہ صرف بہت کچھ لکھا جا چکا ہے بلکہ آئندہ بھی نہ جانے کب تک لکھا جاتا رہے گا۔ غالب کی شاعری پر کتابوں کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور اس حقیقت کے باوصف کہ ان کے عہد میں وہ در خوراعتنا نہ سمجھے گئے۔ آج ان کی شاعری سب سے زیادہ پڑھی جانے والی شاعری( کم از کم اردو زبان میں) کا رتبہ رکھتی ہے۔

 ان کے زیادہ تر اشعار زبان زدِ عام ہو کر محاوروں کی صورت اختیار کر چکے ہیں اور یہی نہیں ماضی کی ہر نسل نے انہیں اپنے طور پر جس طرح وقعت عطا کی۔ آنے والی نسلیں بھی ان کی تخلیقی جہات کی نت نئے زاویوں سے بازیافت کرتی چلی آ رہی ہیں۔ غالب کے ایک ہونہار شاگرد مولانا الطاف حسین حالی لکھتے ہیں:

’’ادبی اہمیت کے لحاظ سے مرزا غالب جتنا جامع الصفات آدمی، فیضی اور خسرو کے بعد آج تک ہندوستان کی خاک سے نہیں اٹھا‘‘  دوسری جانب حسرت موہانی کہتے ہیں ’’ میرے اپنے خیال میں حالی کے اس تبصرے میں شاید یہ الفاظ بھی جمع کر دیے جائیں کہ آنے والے زمانے میں ان دونوں گراں قدر ہستیوں سے بھی زیادہ عرصے تک غالب کی شہرت اپنی شاعری کے پیکر میں دائم و قائم رہے گی تو غلط نہ ہوگا‘‘۔

حسرت نے ایک جگہ تفصیل سے لکھا:

 ’’ہر نقد و نظر کی شخصیت نے انہیں اپنی اپنی نظر سے پرکھا۔ ان کی شاعری کو نئے نئے زاویے سے دیکھا اور اپنی تحریریں تاریخ ادب کے مطالعے میں چھوڑ گئے ہیں تو کیا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ غالب کا قد وقت کی نفی کرتا ہوا ایک ایسا ہیولہ ہے جس کی پیمائش کرنا ابھی باقی ہے۔‘‘

 مولانا حسرت موہانی جیسی ہمہ جہت اور نابغہ ہستی جو خود بھی اپنی شاعرانہ حیثیت میں منفرد رہی غالب پر کچھ کام کئے بغیر دنیا سے رخصت ہو جاتی۔یہ نا ممکن تھا۔ یہاں ان کی جس شہرہ آفاق کتاب کا ذکر کرنے جا رہا ہوں وہ ہے  ’’شرح دیوان غالب‘‘ یہ کتاب اپنی حیثیت میں فی نفسہ ایک مشہور شاعر کا غالب کو خراج عقیدت ہے کہ جو تاریخ ادب کے طالب علم کے لئے قیمتی حوالے کا کام دیتی ہے۔ آج سے سو سال پہلے تصنیف کی گئی اس شرح کے محرکات کیا تھے خود مصنف شاعر کی زبانی سینے جو کتاب کے دیباچے میں موجود ہیں:

’’1904ء میں انجمن اردو معلی کے بعض اراکین کالج میں اتفاقیہ طور پر جمع ہو گئے اور کبھی کبھی شعر و سخن کا بھی پرچار ہونے لگا۔ راقم حروف نے اس موقع پر غنیمت سمجھ کر اکثر شام کی نشستوں میں اپنی تحریر کردہ شرح بھی سنانا شروع کی اور اکثر موقعوں پر اپنے محترم دوستوں مثلاً قاضی شمس الاضحی ،جگر بی اے، پروفیسر ظریف محمد صاحب ایم اے، حاجی محمد اکرم صاحب بی اے ڈپٹی کلکٹر، میمن سنگھ، مرزا محمد اکرم بی اے اور ڈپٹی کلکٹر سیونی کے مشورہ صائب اور نکتہ چینی درست سے بہت کچھ فائدہ اٹھایا اور اسی زمانے سے اس مجموعے کی اشاعت کا بھی خیال پیدا ہوا‘‘۔

اس شرح کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ آج سے ایک صدی قبل یہ جس طرح چھپی تھی، اپنے تمام لوازمات کے ساتھ بعینہ اسی طرح سے شائع کر دیا گیا ہے۔ اس کے مطالعے سے ہمیں اس زمانے کی کتابت اور لیتھو کی چھپائی کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے۔ شرح میں مولانا نے اپنے عہد کی سچی ترجمانی اس طرح بھی کی ہے کہ دیوان غالب کی غزلوں کی ترتیب بہ لحاظ ردیف، حروف تہجی کے اصولوں پر رکھی ہے اور مشکل اشعار یا مشکل الفاظ کو سامنے رکھ کر مخصوص شعر کا مفہوم بنایا ہے یا پھر مشکل تراکیب کی تفسیر بیان کی ہے۔ بعض مقامات پر اگر شعر اپنی ہیئت ترکیبی کے سبب فہم سے بالا تر سمجھا گیا ہے تو اس کا مطلب بھی سمجھایا ہے۔کتاب میں ہمیں اس حسرت موہانی سے بھی ملاقات کا موقع ملتا ہے جو خود شاعر ہے تو ایک عظیم شاعر کو اس کے سیاق و سباق کے ساتھ سمجھنے کا درک رکھتا ہے کیونکہ غالب کے بارے میں تو یہ بات ادب کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ وہ مشکل پسند شاعر تھا اور اس کی یہ مشکل پسندی کبھی شاعری میں نامانوس الفاظ کی صورت میں ظاہر ہوتی تھی تو کبھی فکر کی تہہ داری کے ساتھ مشکل تراکیب کی مشکل میں اشعار کے درمیان موجود ہوتی تھی۔ برسبیل تذکرہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ غالب کے ہاں اکثر فارسی الفاظ کا بے دریغ استعمال ان کی فارسی دانی اور فارسی میں کہی گئی شاعری کے باعث بھی رہا تھا۔ بہرحال بات ہو رہی تھی بطور شارح مولانا کی بصیرت فکر کی، لہٰذا اس بصیرت فکر میں موجود اُن کی شاعری کے فنی رموز سے آگاہی نے انہیں غالب کی شاعری کی فنی خامیوں کی طرف دیکھنے کا موقع بھی فراہم کیا۔

غزل کے مطلع پر ان کی شرح کو پڑھنے سے قبل ذرا ایک صدی قبل کی دنیا کا تصور کیجئے جہاں نہ  رسل و رسائل کی سہولت تھی اور نہ ہی ذرائع آمدورفت بالخصوص فضائی رابطے بھی اس قدر نہ تھے اور نہ ہماری زمین مصنوعی سیاروں کی پہنچ سے اتنی قریب تھی کہ قطبین ہی نہیں شش جہات عالم میں پلک جھپکتے ہی نظر آ جائے۔ ایسے میں مرزا غالب کا یہ مطلع حسرت پر کسی طرح اجاگر ہوتا ہے دیکھئے:

نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا

کاغذ ی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

’’نقش بمعنی تصویر، تصویر چونکہ کاغذ پر ہوتی ہے اس لئے اسے فریادی کہا۔ کیوں کہ ولایت میں فریادی کاغذی پیرہن پہن کر عدالت میں جاتے تھے۔ مطلب یہ کہ ہستی چونکہ موجب ملال آزاد ہے اس لئے تصویر بھی اپنے مانع کی زببان حال شکایت کرتی ہے کہ مجھ کو ہست کرکے کیوں مبتلائے رنجِ ہستی کیا‘‘۔

دیکھئے کہ یہاں کاغذی پیرہن کا مفہوم بتانے کیلئے حسرت کے ولایت کی عدالت کا حوالہ اور آگاہی کا ثبوت دیا ہے تو دوسری جانب  ان کی نگاہ دوربین نے اپنی انفرادیت کے ساتھ ’’کاغذی پیرہن‘‘ کی تفہیم کو وہاں رکھ کر جانچا جہاں اس سے قبل شاید ہی کسی شارح کی نظر پہنچی ہو۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

دھوکے کی سزا

کسی گائوں میں ایک دھوبی رہتا تھا،جو شہر سے لوگوں کے کپڑے گدھے پر لاد کے گائوں لاتا اور دھونے کے بعد اسی پر لاد کے واپس شہر پہنچاتا تھا۔دھوبی کی کمائی کا یہی ذریعہ تھا اور وہ اس قدر کما لیتا کہ با آسانی گزر بسر کر سکے۔

زمین کی گردش رُک جائے تو کیا ہو؟

پیارے بچو!زمین اپنے محور کے گرد ایک ہزار میل فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے گھو م رہی ہے،تاہم اس وقت کیا ہو گااگر اس کی گرد ش اچانک رُک جائے؟اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا ہوا تو اس کے اثرات انتہائی تباہ کُن ہوں گے۔ماہرین کے مطابق اگر زمین کا گھومنا اچانک تھم جائے تو ہر وہ چیز جو کسی دوسری چیز سے بندھی ہوئی نہیں ہے ۔اچانک مشرق کی جانب ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُ ڑنے لگے گی۔اس کے اثرات فضا پر بھی مرتب ہوں گے اور ہوائیں اتنی طاقتور ہو جائیں گی جیسے کسی ایٹم بم کے دھماکے کے بعد ہو سکتی ہیں۔

جانوروں کی دنیا

بٹیر دیہی علاقوں میں پایا جانے والا ایک خوبصورت پرندہ ہے۔اس کا تعلق پرندوں کے گالی فورمز خاندان سے ہے۔پرندوں کے اس بڑے خاندان میں مرغی،مور اور تیتر بھی شمال ہیں۔

پہیلیاں

ایک کھیتی کا دیکھا یہ حال نہ کوئی پتا نہ کوئی ڈال نہ ہی ڈالا بیج نہ جوتا ہل

اقوال زریں

٭… جوش کی بجائے ہوش سے کام لو۔ ٭… نادان کی صحبت میں مت بیٹھو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی باتیں تمہیں اچھی لگنے لگیں۔ ٭…خوش رہنا چاہتے ہو تو کسی کا دل نہ دکھائو۔

ذرامسکرایئے

باپ بیٹے سے: یہ تم کیسی ماچس لائے ہو ایک تیلی بھی نہیں جل رہی؟ بیٹا: ایسا کیسے ہو سکتا ہے ابو ، میں تو ایک ایک تیلی چیک کر کے لایا ہوں سب جل رہی تھیں۔٭٭٭