پاکستان کا سیاسی بحران اور مفاہمت کی سیاست

تحریر : سلمان غنی


پاکستان کا سیاسی بحران بڑھ رہا ہے ۔ حکومت، مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان ماحول میں کافی تلخی پائی جاتی ہے ۔ پی ٹی آئی پر بطور جماعت پابندی لگانے اور بانی پی ٹی آئی ‘ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری پر غداری کا مقدمہ چلانے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔

دوسری طرف ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے پریس کانفرنس میں دہشت گردی کی صورتحال، صوبائی حکومت کے عدم تعاون اور ایک سیاسی جماعت کی طرف ریاست مخالف بیانیے اور ڈیجیٹل دہشت گرد ی پر شدید تحفظا ت کا اظہار کیا گیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھی حکومت کی جانب سے ردعمل سخت ہے ‘ حکومت اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کررہی ہے۔پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات رؤف حسن کو بھی گرفتار کیا گیا ہے ۔ دوسری جانب عدلیہ کی جانب سے ایسے فیصلے آرہے ہیں جو حکومت کے حق میں نہیں، اس پر حکومتی حلقوں سے سخت ردعمل آرہا ہے ۔یہ صورتحال ظاہر کررہی ہے کہ ملک کے حالات اچھے نہیں ، ہم مسلسل بڑے بحران کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔ دوسری طرف عوام میں بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات بالخصوص بجلی کے بلوں کی بنیاد پر شدید غصہ پایا جاتا ہے ۔ جیسے جیسے آئی پی پی یز کے معاملات سامنے آرہے ہیں اور جس انداز میں کپیسٹی پیمنٹ کے نام پر بغیر بجلی پیداکئے کمپنیوں کو اربوں روپے کی ادائیگی کے راز کھل رہے ہیں اس پرلوگوں میں  یقینی طور پر غصہ بڑھ رہا ہے ۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی معاشی مشکلات بڑھ رہی ہیں ۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے اور بجٹ میں بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے لوگو ں کی زندگیوں میں مشکلات بڑھ رہی ہیں ۔ اس صورتحال میں حکومت کو اندازہ ہونا چاہیے کہ لوگوں میں غم وغصہ بڑھ رہا ہے مگر جو حالات ہیں ان میں عام لوگوں کو کیسے ریلیف دیا جاسکتا ہے اس کا جواب حکومت کے پاس بھی نہیں ۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے بجلی کے بحران اوربجلی کی قیمتوں میں اضافے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اوروزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو حکم دیا ہے کہ وہ غیر معمولی فیصلوں کی بنیاد پر لوگوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور معاشی مشکلات کو کم کریں اور لوگوں کو معاشی ریلیف دیا جائے ۔دوسری طرف صنعتکاروں کی جانب سے آئی پی پیزکے معا ہدوں کا فرانزک آڈٹ کروانے کا مطالبہ بڑھ گیاہے۔وہ یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اس پر جو اخراجات ہوتے ہیں ہم اس کو برداشت کرنے کے لیے بھی تیار ہیں ۔

حکومت، مقتدرہ اور پی ٹی آئی کے درمیان مفاہمت کی سیاست کے امکانات بھی بڑھنے کی بجائے کم ہورہے ہیں ۔ پی ٹی آئی اورعمران خان حکومتی جماعتوں سے بات چیت کے لیے بالکل تیار نہیں ۔ ان کے بقول وہ صرف مقتدرہ سے بات  کریں گے جبکہ مقتدرہ کا کہنا ہے کہ 9مئی کے معاملات کے ذمہ داروں سے کوئی بات نہیں ہوگی بلکہ انہیں گلہ ہے کہ 9مئی کے واقعات کے ذمہ داروں کو عدالتیں ریلیف دے رہی ہیں ۔عمران خان کو جب بھی میڈیا سے بات چیت کا موقع ملتا ہے  وہ مقتدرہ اور حکومت پر شدید تنقید کرتے ہیں ۔ایسے لگتا ہے کہ وہ اس وقت قومی سیاست میں ضد اور انا کی سیاست میں الجھ کر رہ گئے ہیں ‘ تاہم حکومت اور مقتدرہ عمران خان کی شرائط پر ان سے مذاکرات کی حامی نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم بانی پی ٹی آئی کی ڈکٹیشن پر کوئی بات نہیں کریں گے ۔حکومت اور مقتدرہ کو گلہ ہے کہ پی ٹی آئی مخصوص مقاصد کے تحت ریاستی اداروں کے خلاف بیانیہ کو ملک کے اندر بھی اور ملک سے باہر بھی استعمال کررہی ہے اور اس میں اس کا بڑا ہتھیار سوشل میڈیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو کہنا پڑا ہے کہ 9مئی کے ملزمان کو ڈھیل دیے جانے سے ملک میں انتشار کی سیاست بڑھ رہی ہے اور ڈیجیٹل دہشت گرد اصل دہشت گردوں کوسپورٹ کررہے ہیں جبکہ ریاست عہد کرچکی ہے کہ کسی بھی فریق کو ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دی جائے گی۔ اصل میں فوج کی توقع یہ ہے کہ اس مشکل صورتحال میں جب ریاست پر کافی دباؤ ہے اور اسے کافی مسائل کا سامنا ہے ایسے میں حکومت ہو یا اپوزیشن سب مل کر ان کاساتھ دیں لیکن سیاست کی تقسیم نے ریاست کے مفاد کو عملًا نقصان پہنچایا ہے ۔دوسری طرف حکومت کے خلاف بھی مہم چل رہی ہے کہ حکومت اگلے چند ماہ تک ختم ہوجائے گی ۔اس کا مقصد ملک میں سیاسی طوفان یا سیاسی غیر یقینی کی صورتحال پیدا کرکے معیشت کو نقصان پہنچانا ہے۔کچھ وفاقی وزیر خود بھی ایسی گفتگو کررہے ہیں جو حکومت کو کمزور کرنے کی وجہ بن رہے ہیں ۔ ان معاملات پر وزیر اعظم کو وزرا کے غیر ضروری بیانات کا نوٹس لینا چاہیے ۔اس وقت پی ٹی آئی کے بارے میں جو کچھ حکومتی سطح پر طے ہورہا ہے اس میں پیپلزپارٹی کو بھی اعتماد میں لیاگیا ہے یہی وجہ ہے کہ اب پی ٹی آئی کے خلاف ممکنہ اقدامات پر حکومت اور پیپلزپارٹی ایک پیج پر نظر آتے ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ جو کچھ بھی اس وقت ملک میں سیاسی اور معاشی محاذ پر ہورہا ہے وہ کیسے ہمیں ترقی کی طرف لے جاسکتا ہے کیونکہ سیاست او رمعیشت نے اگر آگے بڑھنا ہے تو یقینی طور پر سیاسی استحکام درکار ہے ۔ سیاسی استحکام سیاسی مفاہمت کے بغیر ممکن نہیں، مگر اہلِ سیاست ایک دوسرے کی مخالفت میں کافی آگے جاچکے ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ قومی سطح کی سیاست میں انتقام کی سیاست بڑھ گئی ہے ۔ایسے میں مفاہمت کی سیاست کیسے ہوگی ، کون کرے اور کیوں کرے گا، اس پر سوالات ہی سوالات ہیں۔اب بھی وقت ہے کہ سیاسی جماعتوں سمیت سبھی سرجوڑ کر بیٹھ جائیں اور جو بھی مسائل ہیں ان کا حل بات چیت سے نکالنے کی کوشش کریں کیونکہ یہی پاکستان کے مفاد میں ہے ۔ اس سے ہٹ کر محاذ آرائی کی سیاست یا انتقام کی سیاست سے اس ملک کی سیاست کا کوئی بھلا ہونے والا نہیں ۔ ہمیں منفی سیاست سے باہر نکل کر مثبت اور تعمیری سیاست کا رخ کرنا پڑے گا ،اسی میں لوگوں سمیت ملک کا بھی فائدہ ہے۔ ہمیں ان معاملات میں دیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ پہلے ہی ہم  کافی دیر کرچکے ہیں اور اگر لیت و لعل کا یہ عمل جاری رہا تو اس سے ملک کی سیاست کو اور زیادہ نقصان ہوگااور ہم سب اس کے ذمہ دارہوں گے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

دھوکے کی سزا

کسی گائوں میں ایک دھوبی رہتا تھا،جو شہر سے لوگوں کے کپڑے گدھے پر لاد کے گائوں لاتا اور دھونے کے بعد اسی پر لاد کے واپس شہر پہنچاتا تھا۔دھوبی کی کمائی کا یہی ذریعہ تھا اور وہ اس قدر کما لیتا کہ با آسانی گزر بسر کر سکے۔

زمین کی گردش رُک جائے تو کیا ہو؟

پیارے بچو!زمین اپنے محور کے گرد ایک ہزار میل فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے گھو م رہی ہے،تاہم اس وقت کیا ہو گااگر اس کی گرد ش اچانک رُک جائے؟اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا ہوا تو اس کے اثرات انتہائی تباہ کُن ہوں گے۔ماہرین کے مطابق اگر زمین کا گھومنا اچانک تھم جائے تو ہر وہ چیز جو کسی دوسری چیز سے بندھی ہوئی نہیں ہے ۔اچانک مشرق کی جانب ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُ ڑنے لگے گی۔اس کے اثرات فضا پر بھی مرتب ہوں گے اور ہوائیں اتنی طاقتور ہو جائیں گی جیسے کسی ایٹم بم کے دھماکے کے بعد ہو سکتی ہیں۔

جانوروں کی دنیا

بٹیر دیہی علاقوں میں پایا جانے والا ایک خوبصورت پرندہ ہے۔اس کا تعلق پرندوں کے گالی فورمز خاندان سے ہے۔پرندوں کے اس بڑے خاندان میں مرغی،مور اور تیتر بھی شمال ہیں۔

پہیلیاں

ایک کھیتی کا دیکھا یہ حال نہ کوئی پتا نہ کوئی ڈال نہ ہی ڈالا بیج نہ جوتا ہل

اقوال زریں

٭… جوش کی بجائے ہوش سے کام لو۔ ٭… نادان کی صحبت میں مت بیٹھو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی باتیں تمہیں اچھی لگنے لگیں۔ ٭…خوش رہنا چاہتے ہو تو کسی کا دل نہ دکھائو۔

ذرامسکرایئے

باپ بیٹے سے: یہ تم کیسی ماچس لائے ہو ایک تیلی بھی نہیں جل رہی؟ بیٹا: ایسا کیسے ہو سکتا ہے ابو ، میں تو ایک ایک تیلی چیک کر کے لایا ہوں سب جل رہی تھیں۔٭٭٭