یادرفتگان: حمایت علی شاعر:ہمہ جہت ادبی شخصیت

تحریر : محمد ارشد لئیق


تعارف: حمایت علی شاعر کی پیدائش غیر منقسم ہندوستان کے شہر اورنگ آباد میں 14 جولائی 1926ء کو ہوئی ۔ ان کا خاندانی نام حمایت تراب تھا۔ ان کے خاندان کے بیشتر افراد ہندوستانی افواج میں ملازم تھے لیکن انہو ںنے الگ راستہ اختیار کیااور بچپن ہی سے شعرو سخن کی طرف مائل رہے۔ ہندوستان سے ہجرت کے بعد ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے۔

پھر فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ بحیثیت ہدایت کار ، مکالمہ نگاراور نغمہ نگار شہرت حاصل کی۔ پیشہ درس وتدریس سے بھی وابستہ رہے اور سندھ یونیورسٹی میں اْردو کے استاد کی حیثیت سے فرائض انجام دیئے۔ صحافت سے بھی وابستگی رہی۔ غرض کہ حمایت علی شاعر ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک مگر بنیادی طورپر شاعر تھے۔ان کی شاعری کی پہلی کتاب ’’آگ میں پھول‘‘ 1956ء میں شائع ہوئی اور 1958ء میں اسے صدارتی ایوارڈ دیا گیا۔ فلم ’’آنچل‘‘ اور ’’دامن‘‘ کے گیتوں پر انہیں دوبار نگار ایوارڈ سے نوازاگیا۔ 1966ء میں انہوں نے اپنی ذاتی فلم ’’لوری‘‘ بنائی جو سپرہٹ ثابت ہوئی۔ ان کے دیگر شعری مجموعوں میں ’’مٹی کا قرض، تشنگی کاسفر، اور ’’ہارون کی آواز‘‘ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے شعری مجموعے ’’حرف حرف روشنی‘‘ نے بھی بہت مقبولیت حاصل کی۔2002ء میں حکومت ِ پاکستان کی جانب سے ’’ پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ دیا  گیا۔

حمائیت علی شاعر کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے بڑی بھرپور زندگی گزاری، بہت کام کیا، بہت نام کمایا اور ان کے راستے میں ناکامیوں کے کانٹے نہیں بلکہ کامیابیوں اور مسرت کے پھول بکھرے پڑے ہیں۔ بہت کم ہوتے ہیں ایسے لوگ۔ یقینا بہت کم۔ وہ سر سے پائوں تک ایک فنکار ہیں ایک کثیر الجہات فنکار۔ 

 ایک فوجی خاندان میں آنکھ کھولنے والے حمایت علی شاعر پاکستان آنے سے پہلے آل انڈیا ریڈیو میں کام کرتے تھے۔ 1950ء کے اوائل میں ہندوستان سے کراچی آ ئے تو انہوں نے ریڈیو پاکستان کا رخ کیا اور وہاں میں ملازمت اختیار کرلی۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان میں مختلف ذمہ داریاں نبھائیں۔60ء کے عشرے میں وہ فلمی نغمہ نگار کی حیثیت سے پاکستانی فلمی صنعت سے وابستہ ہوگئے۔ ان کی یہ وابستگی 15 برس تک جاری رہی۔

ان کی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے ہوا تھااور بعد میںشعر کے میدان میں قدم رکھا۔ انہو ںنے ڈرامے لکھے اور ادبی دنیا میں اس کی بدولت اپنی ایک مستحکم شناخت قائم کی۔ تحقیق وتنقید کی دْنیا میں بھی اپنی ایک الگ پہچان بنائی۔ ’’پاکستان میں اردو ڈرامہ‘‘ جیسا معیاری تحقیقی مقالہ لکھ کر علمی وادبی حلقے کو اپنی طرف متوجہ کیا۔انہوں نے ایک عمدہ غزل گو کی حیثیت سے بھی اپنے آپ کو منوایا۔ وہ اردو کے سکہ بند شاعر، گیت نگار، اداکار اور ریڈیو ڈرامہ آرٹسٹ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ایک زمانہ ان کی خداداد صلاحیتوں کا معترف ہے۔ غرض کہ جس شعبے میں قدم رکھا اپنی انفرادیت قائم رکھی۔

 حمائیت علی شاعر اردو ادب کی تاریخ کے واحد شاعر ہیں جن کی خودنوشت 3500 اشعار پر مشتمل ہے۔ 2007ء میں ان کے کلیات ’’کلیات شاعر‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے۔ ان کی شاعری کے مختلف زبانوں میں ترجمے بھی ہوئے۔1976ء میں انہوں نے سندھ یونیورسٹی میں اردو ادب کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے پڑھانا شروع کیا۔ جب ان کے بچے بڑے ہوئے تو انہوں نے فلمی صنعت کو خیرباد کہا۔ دراصل ان کی اہلیہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کے بچے اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فلمی صنعت سے وابستہ ہو جائیں۔1989ء میں حمایت علی شاعر کو دہلی میں مخدوم محی الدین انٹرنیشنل ایوارڈ ملا۔2001ء میںانہیں واشنگٹن میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ملا۔

 حمایت علی شاعر ایک عظیم المرتبت شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باغ وبہار شخصیت کے مالک اور طنز ومزاح کے پیکر تھے۔جس محفل میں بیٹھتے اپنے مخصوص قہقہوں اور ادبی لطائف کے ذریعہ محفل زعفران زار بنا دیتے۔

وہ ایک رومانوی شاعر ہیں لیکن انہوں نے اپنی شاعری کے کینوس کو محدود نہیں رکھا۔ ان کی غزلیات میں ہمیں معروضی حالات کی عکاسی بھی ملتی ہے۔ وقت کے ساتھ وہ اپنا شعری اسلوب بھی تبدیل کرتے رہے۔ ان کے اشعار میں ہمیں شعری طرز احساس اور جدید طرز احساس کا بڑا خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔

حمایت علی شاعر نے فلمی گیت نگاری میں بھی کمالات دکھائے۔ انہوں نے اپنی ایک الگ پہچان بنائی۔ ان کے فلمی گیتوں کا معیار بہت بلند تھا اوروہ ادبی چاشنی سے مزین ہوتے تھے۔ ان کی فلم ’’لوری‘‘ کے اداکاروں میں محمد علی، زیبا اور سنتوش کمارشامل تھے۔ اس فلم کی ہدایتکاری کے فرائض بھی انہوں نے سرانجام دیئے۔ اس فلم کے گیت لاجواب تھے۔ انہوں نے مزاحیہ گیت بھی لکھے اور لوریاں بھی تخلیق کیں جو بے حد مقبول ہوئیں۔ 

وہ مشاعروں کے بھی بڑے کامیاب شاعر تھے اور ان کے تنقیدی مضامین کے بھی تین  مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ انہوں نے ’’لوری‘‘ کے علاوہ دو اور فلمیں بھی بنائیں جن کے نام تھے ’’گڑیا‘‘ اور ’’منزل کہاں ہے تیری‘‘۔ حمایت علی شاعر 15جولائی 2019ء کو کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں اس دنیا سے رخصت ہوئے مگر وہ کام کی بدولت ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔

 

چند اشعار

اپنے کسی عمل پہ ندامت نہیں مجھے 

تھا نیک دل بہت جو گنہ گار مجھ میں تھا 

٭٭٭

اس جہاں میں تو اپنا سایہ بھی 

روشنی ہو تو ساتھ چلتا ہے

٭٭٭

تجھ سے وفا نہ کی تو کسی سے وفا نہ کی 

کس طرح انتقام لیا اپنے آپ سے 

٭٭٭

پھر مری آس بڑھا کر مجھے مایوس نہ کر 

حاصل غم کو خدا را غم حاصل نہ بنا 

٭٭٭

صرف زندہ رہنے کو زندگی نہیں کہتے 

کچھ غم محبت ہو کچھ غم جہاں یارو 

٭٭٭

میں کچھ نہ کہوں اور یہ چاہوں کہ مری بات 

خوشبو کی طرح اڑ کے ترے دل میں اتر جائے

٭٭٭

اس دشت سخن میں کوئی کیا پھول کھلائے 

چمکی جو ذرا دھوپ تو جلنے لگے سائے 

٭٭٭

میں سچ تو بولتا ہوں مگر اے خدائے حرف 

تو جس میں سوچتا ہے مجھے وہ زبان دے 

٭٭٭

ایماں بھی لاج رکھ نہ سکا میرے جھوٹ کی 

اپنے خدا پہ کتنا مجھے اعتماد تھا 

٭٭٭

بدن پہ پیرہن خاک کے سوا کیا ہے 

مرے الاؤ میں اب راکھ کے سوا کیا ہے 

٭٭٭

سورج کے اجالے میں چراغاں نہیں ممکن 

سورج کو بجھا دو کہ زمیں جشن منائے 

٭٭٭

میں سوچتا ہوں اس لیے شاید میں زندہ ہوں 

ممکن ہے یہ گمان حقیقت کا گیان دے

٭٭٭

زندگی کی بات سن کر کیا کہیں 

اک تمنا تھی تقاضا بن گئی 

٭٭٭

 

غزل 

میں سو رہا تھا اور کوئی بیدار مجھ میں تھا 

شاید ابھی تلک مرا پندار مجھ میں تھا 

وہ کج ادا سہی مری پہچان بھی تھا وہ 

اپنے نشے میں مست جو فن کار مجھ میں تھا 

میں خود کو بھولتا بھی تو کس طرح بھولتا 

اک شخص تھا کہ آئنہ بردار مجھ میں تھا 

شاید اسی سبب سے توازن سا مجھ میں ہے 

اک محتسب لئے ہوئے تلوار مجھ میں تھا 

اپنے کسی عمل پہ ندامت نہیں مجھے 

تھا نیک دل بہت جو گنہ گار مجھ میں تھا 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

دھوکے کی سزا

کسی گائوں میں ایک دھوبی رہتا تھا،جو شہر سے لوگوں کے کپڑے گدھے پر لاد کے گائوں لاتا اور دھونے کے بعد اسی پر لاد کے واپس شہر پہنچاتا تھا۔دھوبی کی کمائی کا یہی ذریعہ تھا اور وہ اس قدر کما لیتا کہ با آسانی گزر بسر کر سکے۔

زمین کی گردش رُک جائے تو کیا ہو؟

پیارے بچو!زمین اپنے محور کے گرد ایک ہزار میل فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے گھو م رہی ہے،تاہم اس وقت کیا ہو گااگر اس کی گرد ش اچانک رُک جائے؟اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا ہوا تو اس کے اثرات انتہائی تباہ کُن ہوں گے۔ماہرین کے مطابق اگر زمین کا گھومنا اچانک تھم جائے تو ہر وہ چیز جو کسی دوسری چیز سے بندھی ہوئی نہیں ہے ۔اچانک مشرق کی جانب ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُ ڑنے لگے گی۔اس کے اثرات فضا پر بھی مرتب ہوں گے اور ہوائیں اتنی طاقتور ہو جائیں گی جیسے کسی ایٹم بم کے دھماکے کے بعد ہو سکتی ہیں۔

جانوروں کی دنیا

بٹیر دیہی علاقوں میں پایا جانے والا ایک خوبصورت پرندہ ہے۔اس کا تعلق پرندوں کے گالی فورمز خاندان سے ہے۔پرندوں کے اس بڑے خاندان میں مرغی،مور اور تیتر بھی شمال ہیں۔

پہیلیاں

ایک کھیتی کا دیکھا یہ حال نہ کوئی پتا نہ کوئی ڈال نہ ہی ڈالا بیج نہ جوتا ہل

اقوال زریں

٭… جوش کی بجائے ہوش سے کام لو۔ ٭… نادان کی صحبت میں مت بیٹھو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی باتیں تمہیں اچھی لگنے لگیں۔ ٭…خوش رہنا چاہتے ہو تو کسی کا دل نہ دکھائو۔

ذرامسکرایئے

باپ بیٹے سے: یہ تم کیسی ماچس لائے ہو ایک تیلی بھی نہیں جل رہی؟ بیٹا: ایسا کیسے ہو سکتا ہے ابو ، میں تو ایک ایک تیلی چیک کر کے لایا ہوں سب جل رہی تھیں۔٭٭٭