برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ

تحریر : مولانا قاری محمد سلمان عثمانی


اگر کوئی آپ سے برائی کے ساتھ پیش آئے تو آپ اس کے ساتھ اچھائی کے ساتھ پیش آئیں، ان شاء اللہ اس کے مثبت نتائج دیکھ کر آپ کا کلیجہ ضرور ٹھنڈا ہو گا۔

یقینا وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہیں جو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بجائے ظلم کرنے والے کو معاف کرتے اور برائی کو بھلائی سے ٹالتے ہیں۔ برائی کو بھلائی سے ٹالنے کی ترغیب دیتے ہوئے خدائے رحمن عزوجل کا فرمان عالیشان ہے: ترجمہ: ’’اے سننے والے! برائی کو بھلائی سے ٹال جبھی وہ کہ تجھ میں اور اس میں دُشمنی تھی، ایسا ہو جائے گا جیسا کہ گہرا  دوست‘‘۔ (سورۃ حٰمٓ سجدہ:34)

حضرت نبی کریمﷺنے حضرت سیدنا عقبہ بن عامر ؓسے ارشاد فرمایا: ’’اے عقبہ بن عامر! جو تم سے ناطہ توڑے تم اس سے جوڑو، جو تمہیں محروم کرے تم اُسے عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے تم اسے معاف کرو‘‘۔ یاد رکھئے! برائی کا بدلہ برائی سے دینا آسان ہے، یہ کوئی کمال نہیں، کمال تو یہ ہے کہ انسان برائی کا بدلہ اچھائی سے دے جیسا کہ حضرت سیدنا شیخ سعدی ؒکہتے ہیں: ’’بدی کا بدلہ بدی سے دینا تو آسان ہے، اگر تو مرد ہے تو برائی کرنے والے کے ساتھ بھی بھلائی کر‘‘۔ 

نجاست کو نجاست سے نہیں بلکہ پانی سے پاک کیا جاتا ہے لہٰذا آپ کے ساتھ کوئی کیسا ہی برا سلوک کرے، آپ اُس سے اچھا سلوک کیجئے اور اپنا یوں ذہن بنائیے کہ ہم اس دُنیا میں جدائی ڈالنے کیلئے نہیں بلکہ ملانے کیلئے آئے ہیں جیسا کہ مولانا رومؒ فرماتے ہیں: ’’اے انسان! تو ملانے کیلئے آیا ہے جدائی ڈالنے کیلئے نہیں آیا‘‘۔ 

ہر مسلمان کو چاہئے کہ ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرے، خواہ کوئی کتنا ہی ستائے، دِل دُکھائے! ظلم ڈھائے، عفوودرگزر سے کام لیتے ہوئے اس کے ساتھ محبت بھرا سلوک کرنا چاہئے کہ یہی ہمارے آقا ﷺکی سنت ہے۔ چنانچہ اُم المومنین حضرت سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم ﷺنہ تو عادتاً بری باتیں کرتے تھے اور نہ تکلفاً ۔ نہ بازاروں میں شور کرنے والے تھے اور نہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے بلکہ آپﷺ معاف کرتے اور دَرگزر فرمایا کرتے تھے۔کاش! ہمارے اندر بھی یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ ہم بھی اپنی ذات اور اپنے نفس کی خاطر غصہ کرنا چھوڑ دیں اور برائی کا بدلہ برائی کے ساتھ دینے کی بجائے اچھائی کے ساتھ دینے والے بن جائیں کہ یہی ہمارے بزرگانِ دین کا بھی طریقہ رہا ہے۔

 جیسا کہ حیاتِ اعلیٰ حضرت میں ہے کہ ایک بار مولانا شاہ احمدرضا خان ؒکی خدمت میں جب ڈاک پیش کی گئی تو بعض خطوط مغلظات سے بھرپور تھے۔ معتقدین برہم ہوئے کہ ہم ان لوگوں کیخلاف مقدمہ دائر کریں گے، امام اہلسنّت نے ارشاد فرمایا: جو لوگ تعریفی خطوط لکھتے ہیں پہلے ان کو جاگیریں تقسیم کر دو، پھر برائی کرنے والوں پر مقدمہ دائر کر دو۔ مطلب یہ کہ جب تعریف کرنے والوں کو تو انعام دیتے نہیں پھر برائی کرنے والوں سے بدلہ کیوں لیں؟

گناہوں بھری تحریرات چھاپنا:۔ جس طرح کسی مسلمان میں پائی جانیوالی برائیوں یا عیوب کا پیٹھ پیچھے زبان سے بیان کرنا غیبت اور برائی یا عیب نہ ہونے کی صورت میں پیٹھ پیچھے یا اس کے روبرو بیان کرنا بہتان کہلاتا ہے، ایسے ہی لکھ کر چھاپنے کا بھی معاملہ ہے۔ بلااجازت شرعی مسلمان کی کردارکشی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ جو احکام زبان سے کہنے کے ہیں وہی قلم سے لکھنے کے بھی ہیں۔قلم بھی ایک زبان ہے۔اگر ہم کسی مسلمان میں کوئی عیب یا برائی پائیں تو لوگوں میں اس کا چرچا کر کے اسے ذلیل و رُسوا کرنے کی بجائے حکمت عملی اور نرمی کے ساتھ اس کے عیب یا برائی پر مطلع کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنی اصلاح کر لے، اگر پھر بھی اس کی اصلاح نہ ہو تو اس کیلئے دُعائے خیر کیجئے۔ حدیث پاکﷺ میں ہے کہ ترجمہ: ’’تم میں سے ہر ایک اپنے بھائی کا آئینہ ہے، اگر اس میں برائی دیکھے تو اس سے دَفع کر دے‘‘۔ 

حضرت عمر ؓ  فرماتے تھے کہ اللہ عزوجل اس پر رحم کرے جو مجھے میرے عیوب پر مطلع کرے۔ عیوب فرما کر بتایا کہ ہمارا نفس عیبوں کا سرچشمہ ہے یا یہ مطلب ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ ان مومنوں کے ساتھ بیٹھا کرے جن کے ذریعے انہیں اپنے عیوب پر اطلاع ہو۔ آئینہ اس لئے دیکھتے ہیں کہ اپنے چہرے کے چھوٹے بڑے داغ دھبے نظر آ جائیں۔ طبیب کے پاس اسی لئے جاتے ہیں کہ وہاں علاج ہو جائے، ایسے مومنوں کی صحبت اِکسیر ہے اس لئے صوفیائے کرام رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ ہمیشہ اپنے مریدوں اور شاگردوں کے پاس نہ بیٹھو، جو ہر وقت تمہاری تعریفیں ہی کرتے رہیں بلکہ کبھی کبھی اپنے مرشدوں، اپنے اُستادوں اور اپنے بزرگوں کے پاس بھی بیٹھو جہاں تمہیں اپنی کمتری نظر آئے۔ ہاتھی پہاڑ کو دیکھ کر اپنی حقیقت کو پہچانتا ہے۔ ہمیشہ حضور نبی کریم ﷺ کی عظمتوں پر غور کیا کرو تاکہ اپنی گنہگاری اور کمتری محسوس ہوتی رہے۔ محققین صوفیاء اس حدیث پاک ﷺکے یہ معنی کرتے ہیں کہ ’’مومن جب کسی مسلمان میں عیب دیکھے تو سمجھے کہ یہ عیب مجھ میں ہے جو اس کے اندر مجھے نظر آ رہا ہے، جیسے آئینے میں جو داغ دھبے آتے ہیں وہ اپنے چہرے کے ہوتے ہیں نہ کہ آئینے کے، یہ معنی نہایت عارفانہ ہیں۔‘‘ اس صورت میں حدیث پاک میں وارِد الفاظ ’’فَلْیُمِطْ عَنْہُ‘‘ کے معنی یہ ہوں گے کہ مومن کے ذریعے اپنے عیوب معلوم کر کے انہیں دَفع کرو۔ ہاں! اگر کسی کی برائی سے دوسروں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ لوگوں کو اس کے نقصان سے بچانے کیلئے بقدرِ ضرورت صرف اسی برائی کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے۔ 

مسلمان کی جان و مال اور عزت وآبرو کی بڑی اہمیت ہے لہٰذا کسی مسلمان کے پوشیدہ عیوب کو بلامصلحت شرعی لوگوں کے سامنے بیان کر کے اسے ذلیل و رسوا کرنا جائز نہیں کیونکہ اس سے وہ دوسروں کی نظر میں گر جاتا ہے اور شریعت مطہرہ کو یہ بات قطعاً ناپسند ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی نظروں میں ذلیل و خوار ہو لہٰذا مسلمان کی عزت بچانے کیلئے اس کی پردہ پوشی کی جائے۔ مسلمانوں کے عیوب چھپانے اور انہیں ذلیل و رسوا ہونے سے بچانے کی بڑی فضیلت ہے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے ’’ جو شخص اپنے بھائی کا کوئی عیب دیکھ کر اس کی پردہ پوشی کر دے تو وہ جنت میں داخل کر دیا جائیگا‘‘۔ ایک اور حدیث پاک میں ارشاد فرمایا: ’’ جو اپنے مسلمان بھائی کی عیب پوشی کرے، اللہ عزوجل قیامت کے دن اس کی عیب پوشی فرمائے گا اور جو اپنے مسلمان بھائی کا عیب ظاہر کرے اللہ عزوجل اس کا عیب ظاہر فرمائے گا، یہاں تک کہ اسے اس کے گھر میں رُسوا کر دے گا‘‘۔ 

پیارے اسلامی بھائیو! انسان میں جہاں بیشمار خوبیاں ہوتی ہیں وہاں کچھ نہ کچھ برائیاں بھی ہوتی ہیں لہٰذا اگر کسی مسلمان میں کوئی عیب یا برائی پائیں تو جب تک کوئی مصلحت شرعی نہ ہو تو اس کے عیب یا یرائی سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اس کی خوبیوں کی طرف نظر کیجئے کہ مومن ہمیشہ اپنے بھائی کی خوبیوں کو سامنے رکھتا ہے تاکہ اس کے دل میں اس کا احترام، عزت اور محبت باقی رہے۔ پھر بھی اگر کسی کے عیوب بیان کرنے کو جی چاہے تو ایک نظر اپنے گریبان میں بھی جھانک لیجئے اور اپنے عیوب نظر آنے پر انہیں دُور کرنے کی کوشش میں لگ جائیے کہ سرکارِ عالی وقار ﷺ کا فرمان ہے: ’’اس شخص کیلئے خوشخبری ہے جسے اس کے عیوب (پر نظر) نے دوسروں کی عیب جوئی سے پھیر دیا‘‘۔ اللہ عزوجل ہمیں ایک دوسرے کی عزت و آبرو کا محافظ بنائے اور عیب پوشی کی توفیق نصیب فرمائے، آمین۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

دھوکے کی سزا

کسی گائوں میں ایک دھوبی رہتا تھا،جو شہر سے لوگوں کے کپڑے گدھے پر لاد کے گائوں لاتا اور دھونے کے بعد اسی پر لاد کے واپس شہر پہنچاتا تھا۔دھوبی کی کمائی کا یہی ذریعہ تھا اور وہ اس قدر کما لیتا کہ با آسانی گزر بسر کر سکے۔

زمین کی گردش رُک جائے تو کیا ہو؟

پیارے بچو!زمین اپنے محور کے گرد ایک ہزار میل فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے گھو م رہی ہے،تاہم اس وقت کیا ہو گااگر اس کی گرد ش اچانک رُک جائے؟اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا ہوا تو اس کے اثرات انتہائی تباہ کُن ہوں گے۔ماہرین کے مطابق اگر زمین کا گھومنا اچانک تھم جائے تو ہر وہ چیز جو کسی دوسری چیز سے بندھی ہوئی نہیں ہے ۔اچانک مشرق کی جانب ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُ ڑنے لگے گی۔اس کے اثرات فضا پر بھی مرتب ہوں گے اور ہوائیں اتنی طاقتور ہو جائیں گی جیسے کسی ایٹم بم کے دھماکے کے بعد ہو سکتی ہیں۔

جانوروں کی دنیا

بٹیر دیہی علاقوں میں پایا جانے والا ایک خوبصورت پرندہ ہے۔اس کا تعلق پرندوں کے گالی فورمز خاندان سے ہے۔پرندوں کے اس بڑے خاندان میں مرغی،مور اور تیتر بھی شمال ہیں۔

پہیلیاں

ایک کھیتی کا دیکھا یہ حال نہ کوئی پتا نہ کوئی ڈال نہ ہی ڈالا بیج نہ جوتا ہل

اقوال زریں

٭… جوش کی بجائے ہوش سے کام لو۔ ٭… نادان کی صحبت میں مت بیٹھو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی باتیں تمہیں اچھی لگنے لگیں۔ ٭…خوش رہنا چاہتے ہو تو کسی کا دل نہ دکھائو۔

ذرامسکرایئے

باپ بیٹے سے: یہ تم کیسی ماچس لائے ہو ایک تیلی بھی نہیں جل رہی؟ بیٹا: ایسا کیسے ہو سکتا ہے ابو ، میں تو ایک ایک تیلی چیک کر کے لایا ہوں سب جل رہی تھیں۔٭٭٭