مولانا حسرت موہانی ایک درویش صفت شاعر

تحریر : ڈاکٹر عرفان پاشا


کیا سمجھتا ہے اسیرانِ قفس کو صیاددل ہلا دیں جو کبھی درد سے فریاد کریں

حسرت کی زندگی میں عظمت کے اور شاعری میں صداقت کے عناصر اس حد تک نمایاں ہیں کہ ان میں کسی طرح کے ابہام اور پیچیدگی کا ہمیں مطلق احساس نہیں ہوتا۔ ان کے یہاں شخصیت کی بڑائی اور شاعری کی سچائی اپنے اظہار کی کسی شعوری کوشش کے بغیر بھی صاف دکھائی دیتی ہے۔ ان کی زندگی پر ایک ناقابل یقین افسانے کا گمان ہوتا ہے۔ ان کی شاعری ایک سیدھی سادی مگر دلچسپ آپ بیتی کا تاثر قائم کرتی ہے۔ 

ایک بات جو حسرت کی زندگی اور شاعری میں مشترک ہے وہ ایک طرح کی بے لوثی اور معصومیت ہے۔ ایک عجیب و غریب قناعت پسندی ہے۔ اپنے آپ سے بے پروائی اور استغنا کی ایک رفیع اور جلیل کیفیت ہے۔ حسرت کی زندگی اور شاعری، دونوں کو کسی بیرونی سہارے، کسی آرائش کی حاجت نہیں۔ حسرت اپنی چھوٹی سی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ ان کا بے نیاز دل ہر دو جہاں سے غنی نظر آتا ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود، حسرت ہمیں زندگی اور شاعری دونوں سطحوں پر توجہ کے مستحق اور اہم دکھائی دیتے ہیں۔ چنانچہ اردو شاعری کی کوئی بھی صف جمائی جائے اس میں حسرت کی جگہ محفوظ رہے گی۔ ان کی شاعری نہ تو بڑے امکانات کی شاعری تھی، نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ حسرت اپنے معاصرین پر شعری کمال کے اعتبار سے فوقیت رکھتے تھے۔ پھر بھی حسرت کے عہد میں سب سے پہلے ہماری نظر حسرت پر ہی ٹھہرتی ہے۔ وہ موضوع بحث نہ بنیں جب بھی مرکز توجہ ضرور بنتے ہیں۔ حسرت کے عہد کا تصور حسرت کے بغیر کیا جائے تو ایک عجیب سناٹے کا احساس ہوتا ہے۔

بقول شمیم حنفی حسرت ایک درویش صفت شاعر تھے ،جہاں تک اُن کی سیاسی شاعری کا تعلق ہے تو اسے ان کی تخلیقی زندگی کے بس ایک اتفاقی واقعے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ یہ واقعہ اپنی مجموعی قدرو قیمت کے لحاظ سے نہ تو غیر معمولی ہے۔ نہ کسی ایسی سطح کا احساس دلاتا ہے جو دیر تک تجزیے کا بوجھ اٹھا سکے جس طرح یہ ایک حقیقت ہے کہ حسرت کی شخصیت میں عظمت کے باوجود گہرائی نہیں ہے، اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کی شاعری میں سچائی کے باوجود وسعت نہیں ہے۔حسرت کی سیاسی شاعری کا مفہوم محض ان کے سوانحی سیاق میں متعین ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حسرت کی سیاسی شاعری ان کی زندگی کا ایک زاویہ ہے۔

حسرت کے سیاسی تجربوں کی بنیادیں کیسی مضبوط اور استوار تھیں اور ان تجربوں میں کیسی غیر معمولی شدت اور صداقت تھی۔ مگر ان کا بیان کرتے وقت نہ تو حسرت کے سانس کی رفتار تیز ہوتی ہے۔ نہ پڑھنے والے کے حواس تک ان کی آنچ پہنچتی ہے۔ اس کا سبب کیا تھا؟۔

اصل میں سیاسی شاعری تخلیقی اظہار کے ایک نہایت مشکل مرحلے کی حیثیت رکھتی ہے۔پاپلونیروداکا ذکر کرتے ہوئے، مارکیز نے ایک موقع پر کہا تھا ’’ میں نیرودا کو بیسویں صدی کا کسی بھی زبان میں ، سب سے بڑا شاعر سمجھتا ہوں، حتیٰ کہ جب وہ مشکل مقام میں پھنس جاتا تھا مثلاً اس کی سیاسی، اس کی جنگی شاعری، تب بھی شاعری بذات خود ہمیشہ اوّل درجے کی رہتی تھی۔ نیرودا ایک قسم کا شاہ میداس تھا، وہ جس چیز کو چھو لیتا تھا شاعری بن جاتی تھی‘‘۔ظاہر ہے کہ یہ جادوئی لمس ایک ایسی دولت نایاب ہے جس کا سراغ سیاسی واردات کے ترجمانوں میں ہمیں اقبال اور فیض کے علاوہ اپنے کسی بھی شاعر کے یہاں نہیں ملتا۔ لیکن اردو میں سیاسی شاعری کی جو بھی روایت موجود ہے، اس میں مثال کے طور پر کئی شہر آشوب ایسے لکھے گئے اور شبلی یا اکبر سے لے کر ہمارے عہد کے ترقی پسند شعرا تک ایسی متعدد نظمیں کہی گئیں جو اپنی شاعرانہ قدرو قیمت اور اپنی حسیت کے اعتبار سے اہم دکھائی دیتی ہیں۔ ان نظموں میں سیاسی تجربہ ایک ایسی تخلیقی واردات کا حصہ بن گیا ہے جو اپنی دیر پائی کے سبب قیمتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ واردات حسی کیفیتوں اور اظہار و بیان کی سطح پر مختلف سمتوں میں اپنے معنی کی توسیع کرتی ہے۔ مثال کے طور پر شبلی کے یہاں فرنگی سیاست کے خلاف برہمی کا احساس ہے اور اس احساس نے ایک گہرے روحانی احتجاج کی شکل اختیار کر لی ہے۔

شمیم حنفی اپنے ایک طویل مضمون میں لکھتے ہیں کہ حسرت کے سیاسی تصورات بہت منظم نہ سہی مگر اپنے مقاصد کے لحاظ سے بہت واضح تھے۔ ان میں وہی سچائی تھی جو حسرت کی زندگی میں تھی۔ مگر وہ جوہیجان اور جذباتی ابال کا تاثر حسرت کی پوری شاعری پر چھایا ہوا ہے، اس کا سایہ حسرت کی سیاسی شاعری پر بھی پڑا۔ اس تاثر کو کسی بڑے شعوری احتجاج یا کسی نیم فلسفیانہ برہمی اور اداسی کی کوئی ایسی جہت نہیں مل سکی جو حسرت کو ایک نامانوس اور نودریافت تخلیقی کائنات کا راستہ دکھا سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ حسرت اپنی روز مرہ بصیرت اور اپنی عام ہستی کے حدود کو پار کرنے کی طلب سے شاید محروم تھے اور اپنی اس کوتاہی کا خود انہیں بھی احساس تھا، کیسی عجیب بات ہے کہ ایک ایسا شاعر جس کا نصف سے زیادہ کلام جیل خانے میں کہا گیا اس کی اپنی سیاسی زندگی کے بنیادی اور حقیقی ارتعاشات بھی اس کی شاعری میں کوئی گہری گونج نہیں پیدا کر سکے۔ وہ قیدوبند کی سختیوں کا ذکر بھی کرتا ہے تو اس طرح گویا کہ ڈائری لکھ رہا ہو۔ کسی بھی سیاسی تجربے کے مرکز پر حسرت پل دو پل سے زیادہ کیلئے ٹھہرتے ہی نہیں۔ اس سے ان کی سادگی اور اپنے آپ سے بے نیازی کا اظہار ہوتا ہے، تجربے کی گرفت اور شدت کا نہیں، حسرت کا جی لگتا ہے تو صرف اپنی رودادِ محبت کے بیان میں۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس میں، حسرت کی تقریر کا جو خلاصہ سجاد ظہیر نے، روشنائی میں دیا ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حسرت کو اپنے حدود کا علم بھی تھا اور وہ ان سے باہر آنے کا جذبہ بھی رکھتے تھے۔ 

حسرت کی عشقیہ شاعری میں معاشرت اور تہدیب سے وابستگی نے حقیقت اور واقعیت کا ایک خاص رنگ پیدا کیا ہے۔ اسی طرح حسرت کی سیاسی شاعری میں اپنے عہد کی قومی زندگی سے مناسبت اور ربط کا احساس ایک طرح کی دردمندی اور خلوص ہے۔ بیشک، حسرت کو خیالوں کے ساتھ ساتھ انسانوں سے بھی دلچسپی تھی اور ارضیت کے مظاہر سے تعلق خاطر کے معاملے میں تو حسرت شاید اپنے تمام معاصرین سے آگے تھے، مگر کچھ تو اس  لئے کہ حسرت نے کوئی درجن بھر گیت اور گنتی کی کچھ نظموں سے قطع نظر اپنا سروکار بیشتر غزل کی صنف سے ہی رکھا۔                                                   

کیا سمجھتا ہے اسیرانِ قفس کو صیاد

دل ہلا دیں جو کبھی درد سے فریاد کریں

اردو غزل کو نئی زندگی بخشنے والے مولانا حسرت موہانی  13 مئی 1951ء کو لکھنؤ میں انتقال کر گئے۔

موہانی کے اشعار

نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی 

مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں 

 

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے 

ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے 

 

وفا تجھ سے اے بے وفا چاہتا ہوں 

مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

 

تیری محفل سے اٹھاتا غیر مجھ کو کیا مجال 

دیکھتا تھا میں کہ تو نے بھی اشارہ کر دیا

 

آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہار حسن 

آیا مرا خیال تو شرما کے رہ گئے

 

کٹ گئی احتیاط عشق میں عمر 

ہم سے اظہار مدعا نہ ہوا 

 

کہنے کو تو میں بھول گیا ہوں مگر اے یار 

ہے خانہ دل میں تری تصویر ابھی تک

 

دیکھنے آئے تھے وہ اپنی محبت کا اثر 

کہنے کو یہ ہے کہ آئے ہیں عیادت کر کے 

 

ایسے بگڑے کہ پھر جفا بھی نہ کی 

دشمنی کا بھی حق ادا نہ ہوا 

 

آپ کو آتا رہا میرے ستانے کا خیال 

صلح سے اچھی رہی مجھ کو لڑائی آپ کی

 

شعر دراصل ہیں وہی حسرت

سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں

 

واقف ہیں خوب آپ کے طرز جفا سے ہم 

اظہار التفات کی زحمت نہ کیجیے 

 

برق کو ابر کے دامن میں چھپا دیکھا ہے 

ہم نے اس شوخ کو مجبور حیا دیکھا ہے 

 

پھر اور تغافل کا سبب کیا ہے خدایا 

میں یاد نہ آؤں انہیں ممکن ہی نہیں ہے 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

دھوکے کی سزا

کسی گائوں میں ایک دھوبی رہتا تھا،جو شہر سے لوگوں کے کپڑے گدھے پر لاد کے گائوں لاتا اور دھونے کے بعد اسی پر لاد کے واپس شہر پہنچاتا تھا۔دھوبی کی کمائی کا یہی ذریعہ تھا اور وہ اس قدر کما لیتا کہ با آسانی گزر بسر کر سکے۔

زمین کی گردش رُک جائے تو کیا ہو؟

پیارے بچو!زمین اپنے محور کے گرد ایک ہزار میل فی گھنٹہ سے زائد کی رفتار سے گھو م رہی ہے،تاہم اس وقت کیا ہو گااگر اس کی گرد ش اچانک رُک جائے؟اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا ہوا تو اس کے اثرات انتہائی تباہ کُن ہوں گے۔ماہرین کے مطابق اگر زمین کا گھومنا اچانک تھم جائے تو ہر وہ چیز جو کسی دوسری چیز سے بندھی ہوئی نہیں ہے ۔اچانک مشرق کی جانب ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُ ڑنے لگے گی۔اس کے اثرات فضا پر بھی مرتب ہوں گے اور ہوائیں اتنی طاقتور ہو جائیں گی جیسے کسی ایٹم بم کے دھماکے کے بعد ہو سکتی ہیں۔

جانوروں کی دنیا

بٹیر دیہی علاقوں میں پایا جانے والا ایک خوبصورت پرندہ ہے۔اس کا تعلق پرندوں کے گالی فورمز خاندان سے ہے۔پرندوں کے اس بڑے خاندان میں مرغی،مور اور تیتر بھی شمال ہیں۔

پہیلیاں

ایک کھیتی کا دیکھا یہ حال نہ کوئی پتا نہ کوئی ڈال نہ ہی ڈالا بیج نہ جوتا ہل

اقوال زریں

٭… جوش کی بجائے ہوش سے کام لو۔ ٭… نادان کی صحبت میں مت بیٹھو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی باتیں تمہیں اچھی لگنے لگیں۔ ٭…خوش رہنا چاہتے ہو تو کسی کا دل نہ دکھائو۔

ذرامسکرایئے

باپ بیٹے سے: یہ تم کیسی ماچس لائے ہو ایک تیلی بھی نہیں جل رہی؟ بیٹا: ایسا کیسے ہو سکتا ہے ابو ، میں تو ایک ایک تیلی چیک کر کے لایا ہوں سب جل رہی تھیں۔٭٭٭